الوقت - کچھ ثبوت اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی فوج کو اس بات کی اطلاع تھی کہ شام کی فوج رقہ پر حملہ اور اس پر قبضہ کرنے والی ہے۔ اس کے تحت شام کے فوجی دستوں نے رقہ کی جانب جانے والے متعدد علاقوں اثریا اور مشرقی حلب کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ رقہ داعش کے دہشت گردوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اسی لئے اس گروہ نے اس کو اپنا دار الحکومت بنا رکھا ہے۔ شام کی فوج رقہ کی آزادی کی مہم شروع کرتی اس سے سے پہلے ہی امریکا بہادر نے اپنے کرد اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کی آزادی کے لئے مہم شروع کردی۔ شام کے ڈیموکریٹک اتحاد میں کرد، عرب، سریانی، ارمنی اور ترکمانی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے بحران شام کے آغاز اور شام پر داعش کے حملے کے وقت سے ہی اپنی موجودیت کا اعلان کیا تھا اور اپنا ہدف شام اور ترکی کی سرحدوں سے داعش کو نکالنا اور شام کی حکومت سے جنگ کرنا قرار دیا تھا۔ یہاں پر سب سے مہم سوال یہ ہے کہ امریکا داعش کے دار الحکومت پر قبضے کی کوشش میں کیوں ہے؟
رقہ کی آزادی کا سہرا شامی فوج کے سر نہ بندھے
کچھ ثبوت اس بات کی علامت ہیں کہ امریکیوں کو پوری طرح پتا تھا کہ شام کی فوج رقہ کی آزادی کے لئے کاروائی کرنے والی ہے اور اسے یقین تھا کہ شام کی فوج داعش کے قبضے سے رقہ کو آزاد کرا لے گی اور اس کے اس نے رقہ کی جانب جانے والے بعض علاقوں کو آزاد بھی کرا لیا تھا۔ اسی لئے امریکیوں اور اس کے اتحادیوں نے شام میں جنگ بندی کا بہانہ بنا کر القاعدہ، نصرہ فرنٹ اور متعدد دہشت گرد گروہوں کا اتحاد بناکر رقہ میں داعش کے خلاف حتمی کاروائی میں مانع تراشی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان سب کے باوجود امریکا نے ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ صالح مسلم سے فورا رابطہ قائم کیا اور اسے ہتھیاروں سے بھر کر رقہ پر قبضے کے لئے روانہ کر دیا۔ رقہ کے آپریشن میں امریکا کے بھی کئی ہزار فوجی شامل ہیں۔
شام کی تقسیم کا دوسرا قدم
شام کے کردوں نے تین مہینہ پہلے امریکا کی حمایت سے فیڈرل نظام کی تشکیل کے لئے ایک کانفرنس کے انعقاد کی اطلاع دی تھی اور اس بعد انھوں نے خودمختاری کا اعلان کردیا۔ شمالی شام کے کرد ذرائع کا دعوی ہے کہ انھوں نے صوبہ رقہ کوک روژاوا علاق میں ملحق کرن کے لئے صوبہ رقہ کے سات اصل عرب قبائل میں سے پانچ کی موافقت حاصل کر لی ہے ۔ روژاوا کا اردو ترجمہ ہے عربی کردستان۔ اس میں ان علاقوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جہاں پر کرد گروہوں کے مطابق کردستان کی فیڈرل حکومت قائم ہوگی۔ داعش کے دار الحکومت رقہ پر قبضہ کرنے کا مقصد، فیڈرل نظام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہاں پر یہ بات کہنے سے کوئی دریغ نہیں ہونا چاہئے کہ شام کی تقسیم کے لئے کرد امریکای کے سب سے پہلے فوجی ہیں۔ یہ ایسا منصوبہ تھا جس پر صیہونی برسوں سے کام کر رہے تھے تا کہ ایران، ترکیی، عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں رہنے والے کرد اپنی آزاد حکومت قائم کردیں۔ کردی یہ بھی کوشش ہے کہ رقہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس مہم شہر کو ترکی کی سرحدی پٹی سے جدا کر دیں اور اس شہر میں ترکی کی سرگرمیوں پر روک لگا دیں اور اس "منج" علاقے کی آزادی سے اس پر عمل شروع ہو جائے گا۔
شامی فوج سے شدید مقابلے کے لئے داعش کا اجتماع
رقہ پر ممکنہ قبضے کے بعد داعش کی ایکی بڑی نفری شامی فوج سے زبردست مقابلے کے لئے شام کے مشرقی صوبے دیر الزور منتقل ہو جائے گی۔ گرچہ بعض خبروں میں یہ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی داعش اور علاقے کے کچھ گروہوں کے درمیان رقہ سے سنگین ہتیاروں کی منتقلی کا معاہد ہو گیا اور یہ کام شروع بھی ہو گیا ہے۔ اس طرح سے امریکی داعش کو منتشر ہونے سے روکتے ہوئے انھیں ایک اہم علاقے میں مرکوز کر دیں گے تاکہ اگر شامی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے انھیں انسانی قوت کی ضرورت پڑے تو پہلے سے ہی اسٹاک میں افرادی قوت رہے۔ ابھی یہ حالت پوری طرح واضح نہیں ہے کہ داعش کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے داعش کے کچھ جنگجو عراق چلے جائیں اور یہاں پر بلاواسطہ امریکی اہداف کو آگے بڑھائیں۔ یا یہ کہ شام میں ہی دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ داعش کو باقی رکھا جائے۔ وہ گروہ جن کو سعودی عرب اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ یہ وہی گروہ ہیں جن کو امریکا دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کو کبھی تیار ہی نہیں ہوا۔
تیل کی دولت سے شام کی حکومت کی جاری محرومیت
داعش نے شام کے تیل سے مالا مال کچھ علاقوں کو جیسے ریف حسکہ میں الہول اور الشدادی کو بغیر کسی مزاحمت کے شام کے ڈیموکریٹک کے فوجیوں کے حوالے کر دیا لیکن شہر دیر الزور جو داعش کے دہشت گردوں کا مستقبل میں اہم ٹھکانہ بنے گا، عراقی سرحد کے نزدیک شام کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ شہر اب سے عراق میں موجود داعش کے لئے ایک مضبوط ٹھکانے کی حیثیت رکھ سکتا ہے۔ اس علاقے کا رقبہ 33 ہزار کیلومیٹر ہے اور اس کی آبادی پندر لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہاں کے عوام زراعت کے ذریعے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ شہر شام کی معیشت کا مرکز شمارہوتا ہے۔ یہاں سے دریائے فرات گزرتی ہے اور یہ شام کا سب سے اہم آبی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیر الزور شام کا تیل سے مالامال شہر ہے کہ شام کی حکومت ابھی اس منبع مالی سے محروم ہے ۔ اس شہر میں داعش کا اجتماع یعنی شام کی حکومت کا اس شہر کے تیل کے ذرائع اور اقتصادی مفاد سے محروم رہنا ہے۔
ڈیموکریٹ کو ایک بڑی کامیابی کی ضرورت
امریکا کو شام میں داعش کے دہشت گردوں کے مقابلے میں ایک بڑی کامیابی کی ضرورت ہے۔ اوباما ایک بڑی کامیابی کے ساتھ ہی وائٹ ہاوس چھوڑنا چاہتے ہيں تاکہ ان کے نام کوئی کارنامہ رہے۔ ڈیموکریٹ بھی صدارتی انتخابات کے موقع پر زبردست انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ٹرمپ نے اپنے حالیہ خطاب میں اوباما انتظامیہ کی شام اور عراق کے بارے میں پالیسیوں کی مذمت کی اور کہا اوبامہ انتظامیہ شام اور عراق میں داعش سے مقابلے میں سنجیدہ نہيں ہے۔ یہاں پر یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ امریکا خود ہی عراق اور شام میں داعش کو وجود بخشنے والا رہا ہے اور اس طرح وہ داعش سے مقابلے اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر قبضہ کرکے داعش سے جد و جہد میں اپنی شبیہ کو صحیح کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ لوگو دہشت گردی سے جنگ کے میدان میں خود کو سورمہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مذاکرات میں مراعات لینے کا ہتھکنڈا
سعودع عرب کے وزير خارجہ عادل الجبیر نے کچھ ہی روز پہلے میدان جنگ میں شامی فوج کی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ شام میںی فوجی موازنے کو خراب کرنے کی ضرورت ہے۔ شام کے شہر رقہ پر قبضہ، شام میں فوجی موازنے کو خراب کرنے کی کوشش سمجھی جا رہی ہے۔ بشار اسد کے خلاف ممالک کا اتحاد، یہ سمجھ رہا ہے کہ رقہ پر قبضہ ہونے سے شام کے امن مذاکرات میں ان کو برتری حاصل ہو جائے گی۔
نو فلائی زون امریکا کے لئے اہم
جیسا کہ الوقت ویب سائٹ نے خبر دی تھی کہ امریکا نے داعش سے مقابلے کے بہانے 2014 کے آخر میں شامی کردوں کے سربراہ صالح مسلم سے ایک خفیہ سمجھوتہ کیا جس کے تحت وہ چھوٹے صوبے رقہ پر قبضہ کریں گے اور اس طر سے رقہ اور حسکہ کے علاقے میں نو فلائی زون قائم ہو جائے گا۔ اس طرح سے رقہ امریکیوں کے لئے پیر جمانے کا بہترین موقع ہوگا۔ شام کی حکومت کے مخالفین عرب اور مغربی ممالک کی دیرینہ خواہش شام میں نو فلائی زون کا قیام ہے۔ شام میں نو فلائی زون سے پورا علاقہ فوجی سرگرمیوں کے لئے پر امن ہو جائے گا۔