الوقت - امریکا میں انتخابات کے ماحول، انتخابی ریلیوں اور اس میں ہونے والی جھڑپوں نیز کچھ ڈیموکریٹس کی لن ترانیوں سے بڑھ کر امریکا عراق اور شام میں کچھ اور ہی ڈراما کرنے کی سوچ رہا ہے۔ یہ دو ملک اس وقت امریکا کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو شنبہ کو عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے فلوجہ کی آزادی کے لئے آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا اور اس حکم کے جاری ہوتے ہی فوج اور رضاکار فورس نے فلوجہ پر تین جانب سے حملہ کر دیا اور فلوجہ کے دسیوں نواحی علاقوں کو آزاد کرا لیا۔ ابھی فوج فلوجہ کے اطراف میں ہی تھی کہ یہ خبر شائع ہو گئی کہ دونوں فریق میں فلوجہ کی آزادی کے لئے معاہدہ ہو گیا ہے۔ بغداد میں تعینات سعودی عرب کے سفیر نے عراق کے وزیر دفاع سے ملاقات میں کہا کہ داعش کے کمانڈر نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ کچھ شرطوں سے ساتھ فلوجہ پر بہت آسانی سے قبضہ ہو جائے گا۔ ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ یہ خبر سامنے آئی کہ امریکی کی قیادت میں کردوں نے رقہ کی آزادی کے لئے مہم شروع کر دی ہے۔ شام کا شمالی صوبہ رقہ داعش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ شام کے کردوں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اکیلے اپنے دم پر داعش کے خلاف آپریشن شروع کر سکیں۔ اس کے پس پردہ کچھ راز ہیں جس کی جانب اشارہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔
عراق میں داعش سے مقابل کے مسئلے میں دو چيزوں کا تجربہ ہوا۔ ایک عوامی رضاکار فورس کی مرکزیت سے مزاحمت کا وجود جس نے بابل، صلاح الدین، کرکوک اور دیالی کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزادی کرایا جبکہ دوسری چيز امریکی فضائیہ کی مرکزیت سے صوبہ الانبار کے مرکز رمادی کی آزادی کا مسئلہ۔ پہلی کاروائی میں داعش کے صحیح ٹھکانوں پتا لگا کر سٹیک اور دقیق حملے کئے گئے اور اس کے بعد اس مقام پرحملہ کیا گیا اور اس علاقے کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کر دیا گیا۔ اس طرح سے گھروں کی بربادی بھی نسبتا کم ہوئی اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی کم ہوا۔ اس طرح کی کاروائی میں کم از کم چار صوبے آزادی ہوئے اور عوام بڑی آسانی سے اپنے گھروں کو لوٹنے میں کامیاب رہے۔ آپریشن کا دوسرا طریقہ جو رمادی میں انجام پایا، اس میں مذکورہ شہر پر شدید بمباری کی گئی، اتنی شدید بمباری کہ شہر کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ اس طرح سے کہ اس کاروائی میں کوئی بھی اپنی جان بچانے میں کامیاب نہيں رہ سکا۔ اس کاروائی میں حملہ کرنے والی فوج کو نقصان نہ کے برابر ہوتا ہے لیکن انسانی نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے رمادی کی آزادی کے بعد امریکی کسی دوسرے شہر کو آزاد کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
پہلے اور دوسرے آپریش کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ داعشیوں کو جب یہ سمجھ میں آگیا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ان کے ٹھکانوں پر اندھا دھند حملے کر رہے ہیں تو انھوں نے اپنا ٹھکانہ ہی بدل دیا۔ ان کو جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو حفاظت میں قادرنہیں ہیں۔ اس طرح سے گزشتہ مہینوں میں جنگی حالات پر نظر ڈالی جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ داعش کی مزاحمت کی توانائی بہت زیادہ کم ہوئی ہے اور اس سے ان کے کمانڈروں کی سطح پر اختلافات بھی ابھر کا سامنے آنے لگے۔ یہ ایسی حالت میں ہے جب سے داعش نے شمال مغربی عراق اور شمال شرقی شام کے علاقوں پر قبضہ کیا اور ظاہرا ایک مقام پر وہ رک گئے تو بغداد اور دمشق حکومت کے لئے داعش سے مقابلہ کرنے کی ترجیح ہی ختم ہوگئی کیونکہ فوجی اصلاح میں مسئلہ بحران سے مشکلا میں تبدیل ہو گیا لیکن داعش کچھ اسباب ک وجہ سے امریکا کے لئے ترجیح میں تبدیل ہو گیا؟ لیکن کیوں؟
امریکا کے آئندہ انتخابات میں شریک امیدار داعش پر کامیابی کا پتا کھیل رہے ہیں اور اس کو انتخاباتی وعدوں کی حیثت سے استعمال کررہے ہیں۔ دہشت گردی سے مقابلے کے موضوع پر گفتگو کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا وجود امریکا کی خفیہ ایجنسی سے تو نہیں ہے؟ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان تکفیری دہشت گرد گروہوں اور امریکا کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد میں کوئي ربط نہیں ہے۔ یہاں پر یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ امریکی نعرہ ہے، اوبامہ انتظامیہ نے شام اور عراق میں دہشت گردوں کی طاقت کو کم کرنے کے لئے کیا کیا۔ عراق اور شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ میں ہمیں دو نظریات کا سامنا ہے ایک نظریہ کمزور اور دوسرا بہت ہی طاقتور۔ طاقتور نظریہ نصرہ فرنٹ ہے جو موجود وقت میں حلب، درعا، سویدا اور قنیطرہ اور پورے صوبہ ادلب پر قابض ہے۔ نصرہ فرنٹ کے تحت کاروائی کرنے والے والے متعدد گروہ بھی وجود میں آ گئے ہیں جیسے احرار الشام، فتح الاسلام، جیش الفتح، جیش الاسلام، فیلق دمشق وغیرہ۔ یہ گروہ انھیں علاقوں سے عوام پر مشتمل ہے اور یہ مقامی لوگوں میں اتنا گھل مل گئے ہیں کہ امریکا کے لئے ان سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ امریکا کو داعش اور اس کے دسیوں ذیلی گروہوں سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتا۔
بہرحال امریکا بہادر عراق اور شام میں دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے کچھ اور ہی منصوبہ رکھتا ہے اور علاقے کے عوام کو امریکی منصوبوں کے حوالے سے ہوشیار رہنا چاہے۔