الوقت – گزشتہ کجھ برسوں میں ترکی کی خارجہ پالیسی بہت زیاد اس ملک کے وزیر خارجہ احمد داود اوغلو سے متاثر رہی رہے۔ احمد داود اوغلو کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کچھ اہم مسائل پر منحصر ہیں۔
شام اور عراق سمیت علاقے میں بحرانوں کے جاری رہنے کی وجہ سے ترکی کو متعدد قسم سے سیکورٹی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ترکی میں جاری سیکورٹی مسائل کے مندرجہ ذیل اسباب بیان کئے جاتے ہیں۔
1- داعش کو کنٹرول کرنے میں ناتوانی: فوجی اور مالی ذرائع کے مدنظر داعش کے سرکش ہونے اور ترکی کے لئے خطرے میں تبدیل ہونے کےامکانات پائے جاتے ہیں۔ در حقیقت اس بات کے مد نظر کے داعش کا انتظام ترکی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسی لئے اس بات کا پورا پورا امکان پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر عراق اور شام جیسے ممالک میں داعش کے وجود سے پیدا ہونے والا خطرہ ترک حکومت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
2 – شام اور عراق میں ترکی کی سرحد پر نا امنی اور عدم استحکام کے سبب ترکی میں طولانی تشدد اور ناامنی کا سبب بن سکتا ہے۔ حقیقت میں ترکی سے ملے ہوئے سرحدی ممالک میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، ترکی کی خارجہ پالیسی کے لئے ایک سنگین چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
3- گرچہ عراق کے معاملے میں ترکی سعودی عرب کی طرح شیعوں کو کمزور کرنے اور سنیوں کو حکومت میں پہنچانے کا خواہاں ہیں لیکن مکمل طور پر مشرق وسطی کے انتظام کے معاملے میں اس کے سعودی عرب سے گہرے اختلافات ہیں۔ یہ مسئلہ شام اور مصر میں واضح ہو گیا۔ یہاں پر ایک باب قابل توجہ ہے کہ ترکی علاقے میں سنی- اخوانی نظام کی حمایت کرتا ہے جبکہ سعودی عرب سنی- وہابی نظام کی حمایت کرتا ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کی علامت ہے کہ ترکی کو طولانی مدت میں اور تمام علاقائی مسائل میں علاقے کے ایک موثر اتحادی کا فقدان ہے۔
4 – کردستان علاقے کی خود مختاری ترکی کے سیکورٹی مسائل پر طولانی اثرات مرتب کر سکتی ہے اور ترکی میں موجود آزادی اور خودمختاری کی خواہش رکھنے والے کردوں کو آگے بڑھنے میں مدد کر سکتی ہے۔ گرچہ شام کی تبدیلیوں کے شروع سے ہی اردوغان کردوں کے مسائل کو لے کر حساس تھے، یہاں تک کہ انھوں نے شمالی شام کے سرحدی علاقے میں نو فلائی زون کے قیام کی بھی اطلاع دی تھی۔
5- عراق اور شام، مشرقی ممالک کے ساتھ ترکی کے رابطے کے دو اہم راستے ہیں اور اقتصادی لحاظ سے بھی ان علاقوں کا پر امن ہونا، ترکی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی کو شام اور عراق کے راستے اپنے ساز وسامان کی منتقلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جب سے عراق میں جھڑپیں شروع ہوئی ہیں، ترکی سے عراق صادر ہونے والے سامان کی تعداد میں 30 فیصد کمی واقع ہو گئی۔
6 - عراق میں تمام سیاسی پارٹیوں سے ترکی نے دوری اختیار کر لی ہے اور کسی ایک گروہ کی حمایت اس ملک پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بہرحال شام اور عراق کے مسائل میں ترکی کی بے جا مداخلت نے ترکی کی سیکورٹی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور احمد داود اوغلو کا استعفی اور اس ملک میں جاری داخلی کشیدگی، انھیوں تبدیلیوں کی نشانی ہے۔