الوقت - پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جب بھی اقتدار خطرے میں نظر آتا ہے تو وہ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کا دامن تھام لیتے ہیں، دوسری جانب 1998 سے سعودی عرب پاکستان کو روزانہ 5 لاکھ بیرل تیل مفت دیتا ہے کہ جس کی سالانہ قیمت دو ارب ڈالر ہے۔
پاکستان کے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد خاص طور حالیہ مہینوں کے بعد سے وہ مالی بدعنوانی کے سبب سیاسی بحران کا شکار رہے ہیں اور اس طرح سے ان کی حکومت اور عرب حکومت کے تعلقات میں مزید نزدیکی ہونے لگی۔ گزشتہ چند مہینوں میں اسلام آباد ان ممالک کے بہت سے حکام کا میزبان رہا اور اس طرح سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت علاقائی مسائل کو خاصی اہمیت دے رہی ہے۔
دوسری جانب شام میں حالات باغیوں کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور ان کو بھاری ہتھیاروں اور نئی فوجی اسٹراٹیجی کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب ، اردن اور قطر نے شام کے باغیوں کی ٹریننگ کے لئے نئے کیمپ شروع کئے ہیں لیکن پھر بھی انھیں فوجی ٹریننگ اور فوجی سازو سامان کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا بہترین آپشن ہو سکتا ہے۔
طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور افغانستان کی صورتحال کے بارے میں پاکستانی فوج کے امریکا کے ساتھ شدید اختلافات ہیں اور یہی سبب ہے کہ دہشت گردوں سے مقابلے کے نام پر پاکستان کی فوج جو مالی اور فوجی امداد ملتی تھی، وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور اب وہ کوشش کر رہی ہے کہ دوسرے راستوں سے اپنی ضرورتوں کو پورا کریں اور عرب ممالک اس بارے سے سب سے بہترین آپشن ہے۔ در ایں اثنا اس نکتے کی جانب بھی اشارہ ضرور ہے کہ 1998 سے اب تک روزانہ پانچ لاکھ تیل بیرل مفت میں پاکستان کو دیتا ہے جس کی قیمت دو ارب ڈالر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان اور دفاعی امور کی تجزیہ نگار شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تنازع کے مد نظر، عرب ممالک کے جھگڑوں میں اسلام آباد کی مداخلت کے ملک پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کو اس بارے میں اپنی غیر جانبداری کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عرب ممالک کے بحران میں مداخلت کرے گا؟
اس مسئلے کو واضح کرنے کے لئے کچھ نکات پر توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج، سعودی عرب، امارات، قطر، اردن، بحرن اور ان جیسے عرب ممالک کی افواج سے بہت طاقتور ہے۔ اس کے پاس کئی جنگوں کا تجربہ اور اس کے پاس بیلسٹک میزائیلوں سے لے کر ایٹم بم تک ہیں، شاید یہی سبب ہے کہ علاقائی عرب ممالک پاکستان پر طمع بھری نظر لگائے ہوئے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور یہ ملک غیر ملکی امداد پر منحصر رہتا ہے۔ آجکل پاکستان میں توانائی کا بحران بھی شدید ہو گیا ہے اور وہ اقتصادی اور توانائی کے مسئلے میں مدد کے لئے عرب ممالک کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں گر چہ پاکستان، امریکا کے ساتھ ہے لیکن وہ علاقے کی انتطام کے مسئلے پر امریکا سے شدید اختلافات رکھتا ہے۔ پاکستان کو اس بات کی تشویش ہے کہ موجود حساس حالت میں امریکا، پاکستان کے بجائے ہندوستان کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس نے پاکستان کو مجدھار میں چھوڑ دیا ہے۔ ہندوستان اور امریکا کے درمیان سول ایٹمی پروگرام کی توسیع کے بارے میں ہوئے معاہدے کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکا- ہندوستان سول ایٹم سمجھوتے نے پاکستان کو بہت تکلیف پہنچائی۔ امریکا نے ایٹمی مسئلے پر ہندوستان اور پاکستان دونوں پر پابندیاں عائد کی تھیں لیکن وقت گزرنے بعد ہندوستان سے اس نے سول ایٹمی معاہدہ کر لیا اور پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
چھوتا نکتہ یہ ہے کہ یہی حالت عرب ممالک کے ساتھ بھی ہے۔ گرچہ یہ ممالک اس وقت پوری طرح سے مغرب کے ساتھ ہیں لیکن ان کو ہمیشہ یہ تشویش لاحق رہتی ہے کہ امریکا کے مفاد کے مدنظر اس کے مواقف میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
عرب حکام کو یاد ہے کہ امریکا نے حسنی مبارک کے سلسلے میں کیا کیا۔ حسنی مبارک کا 30 سالہ قدیمی اقتدار خاک میں مل گیا لیکن امریکا نے کچھ بھی نہیں کیا۔ حسنی مبارک سے بدتر حال قذافی کا ہوا، انھوں نے مغربی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام ایٹمی صنعتوں پر تالے لگا دیئے اور ان میں موجود تمام وسائل و اسباب کو کشتی کے ذریعے امریکا روانہ کر دیا۔ اس نے برلوسکونی اور سارکوزی کی عیاشی اور انتخابات کے تمام خرچے برداشت کئے لیکن برے وقت میں انھیں لوگوں نے اس سے منہ پھیر دیا۔
پانجواں نکتہ یہ ہے کہ امریکا کے اتحادی ممالک کو امریکا اور مغرب کے دوہرے معیار کا سامنا ہے۔ جہاں سعودی عرب امریکا کی اس بات پر تنقید کرتاہے کہ اس نے شام میں روس سے گفتگو کی تجویز قبول کی وہیں برطانیہ کی پارلیمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کو ہتھیار نہ فروخت کئے جائیں کیونہ وہ یمن کے عام شہریوں کے خلاف ان اسلحوں کا استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان پر افغانستان میں دوغلی پالیسی کا الزام ہے اور یہی سبب ہے کہ اسے ہمیشہ امریکی امداد میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر بار پاکستانی حکام کسی نہ کسی بہان سے امرکیوں کو امداد پر مجبور کر دیتے ہیں۔
بہرحال علاقے میں پاکستان پےپناہ توانائیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہے اور یہی سبب ہے سعودی عرب سمیت عرب ممالک اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی مذہبی توانائی، سعودی عرب کے لئے اس کی فوجی توانائیوں سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان میں دیوبندی اور اہل حدیث مسلک کی بڑی آبادی ہے اور اس چیز نے پاکستان کو انتہا پسندوں کے گڑھ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سعودی عرب نے جب یمن پر حملہ کیا اور شروعاتی مہینوں میں جب یمن کے انقلابیوں نے سعودی عرب پر میزائل سے حملے نہیں کئے، سعودی عرب نے فرقہ واریت کا سہارا لیتے ہوئے ان افراد کوجذبات کو بھڑکا دیا جو روس سے جنگ کے وقت سے ہی سعودی عرب کے نمک خوار تھے۔ بحرین کے انقلاب کی ناکامی کا سبب بھی یہی ہے۔
بہرحال موجودہ وقت میں پاکستان سے عربوں کو یہ توقع ہے کہ پاکستان اپنی پوری طاقت کے ساتھ عربوں کے ساتھ رہے اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور فوج کا رجحان بھی یہی ہو لیکن رجحان ہی کافی نہیں اور اس راستے میں بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں۔ علاقائی مسائل میں پاکستان کی دلچپسی کہیں اس کو ملک کے دو اہم مسائل مسئلہ کشمیر اور افغانستان سے دور نہ کر دے۔