الوقت - سعودی عرب کے شہزادے ترکی الفیصل اور اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ جنرل ياكوو عمیدرور نے واشنگٹن میں جمعرات کی رات ایک پلیٹ فارم پر شرکت کی جو واضح طور پر اپنے آپ میں پہلا واقعہ ہے۔
سعودی عرب کے شاہی خاندان کے موثر شہزادے اور اسرائیلی فوج کے سابق جنرل نے مختلف مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایران کے جوہری معاہدے پر تشویش ظاہر کی۔
سعودی عرب کے انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ اور امریکہ میں سعودی سفیر ترکی الفیصل نے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں علی الاعلان اسٹیج پر اسرائیلی فوج کے سابق جنرل اور اسرائیلی وزیر اعظم کے سابق مشیر ياكوو عمیدرور سے ایران کے جوہری معاہدے، حزب اللہ کے خطرات اور فلسطین - اسرائیل امن منصوبہ پر بحث کی۔
جمعرات کی رات واشنگٹن میں ہونے والی اس ملاقات میں پرنس ترکی االفیصل نے کہا کہ عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل پرامن تعلقات رکھتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہم کسی بھی چیلنج کا مل کر مقابلہ کر سکتے ہیں اور دو ہزار دو میں سعودی عرب کے فلسطین - اسرائیل امن منصوبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم کے مطابق اس ملاقات میں سعودی عرب کے شہزادے ترکی الفیصل نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ بیت المقدس میں نماز ادا کریں لیکن جب تک اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان صلح نہیں ہو جاتی ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔
ترکی الفیصل نے کہا کہ ایران یا کسی بھی دوسرے خطرے سے نمٹنے کے لئے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعاون اسی وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان امن ہو اور میرے خیال میں اس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ یہودی سامعین سے کہتا ہوں کہ عربوں کی عقل اور یہودیوں کی دولت سے ہم زیادہ اچھی طرح آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان دونوں کی مدد سے ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
اس گفتگو میں اسرائیلی جنرل نے کہا کہ اسرائیل کی تشویش ایران کے جوہری پروگرام سے ہے کیونکہ ایک نہ ایک دن ایران جوہری طاقت بن جائے گا چاہے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کر کے یا پھر دس پندرہ سال بعد جوہری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور ہم یہ نہیں ہونے دیں گے چاہے امریکیوں کی مدد سے یا ان کی مدد کے بغیر۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بہت سی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے حکام کے درمیان ملاقات کی بات کہی گئی ہے لیکن یہ پہلی بار ہے جب دونوں فریق واضح طور پر ایک پلیٹ فارم پر ایک ساتھ شریک ہوئے۔