الوقت - امریکہ کا سیاسی کلچر بہت زمانے سے دوسروں کے لئے مثال سمجھا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ مہینوں میں صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے وہ پرائمری اسکول ، مافیا اور فحشیات کا ملغوبہ نظر آتا ہے ۔
امریکہ دنیا کی پہلی جمہوریت نہيں تھا لیکن برسوں تک اسے اپنی جمہوریت پر ناز ضرور رہا ہے ، امریکہ کی طرح اپنے حکومتی نظام اور سسٹم کے بارے میں کوئی بھی دوسرا ملک بات نہيں کرتا تھا لیکن اب حالات یہ ہےکہ امریکی سفارت کار دوسروں کو جمہوریت کا سبق سکھاتے وقت انتہائي مضحکہ خیز نظر آتے ہیں ۔ الزام تراشیوں کا زیادہ سلسلہ ریپبلیکن دھڑے میں نظر آتا ہے جو ابراہیم لنکن کی پارٹی رہی ہے ۔
ریپبلین امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی اہلیہ اور پھر جوابی طور پر ٹیڈ کروز کی بیوی کے بارے میں بیانات ایک دوسرے کے ناجائز تعلقات کا ذکر ، دھوکہ باز ، جھوٹا اور اس طرح کی گندی گالیاں اس بار کے صدارتی انتخابات کے مقدماتی مرحلے میں سب کچھ نظر آتا ہے اور مار پیٹ میں تو ٹرمپ کے نزدیک کوئي مضائقہ ہی نہيں ہے ۔ انہوں نے اپنی ریلی میں اپنے حامیوں کی جانب سے مار کھانے والوں کو نقد تاوان ادا کرنے کی پیشکش کی ہے ۔ انہوں نے مشکل سوالات کرنے والی ایک خاتون صحافی کے بارے میں بھی فحش بیان دیا جبکہ جسمانی طور پر معذور ایک صحافی کی کھل کر مذاق اڑایا ۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہےکہ امریکہ اس وقت صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہو گیا ہے ۔
نفرت انگیز حکمت عملی صرف انتخاباتی مہم تک ہی محدود نہيں ہیں بلکہ اب اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے ۔ اس کے لئے سر فہرست دو امیدوار ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ یہ امیدوار ، امریکہ میں شرافت ، ایمانداری ، امن پسندی اور شفافیت جیسے اقدار میں انحطاط کے عمل کی پیداوار ہیں البتہ ریپبلیکن پارٹی اس حالت کی زیادہ ذمہ دار ہے اور اب خود ٹرمپ کا یہ کہنا ہےکہ ریپبلیکن کے پاس اس کے علاوہ کوئي راستہ نہیں ہے کہ وہ انہیں جنرل الیکشن میں اپنا امیدوار بنائيں ۔ اس صورت میں الیکٹرورل شکست اس پارٹی کو اپنی حالت پر غور کرنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ اس وقت یہ پارٹی اس عوامل کا پتہ لگائے گی جن کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئي ہے اور پھر جو تبدیلیاں ہوں گی وہ یقینی تمدن و تہذیب کے عنصر کے ساتھ ہوں گی کیونکہ اس پارٹی کا امریکہ کے آئین کے ساتھ گہرا رشتہ ہے ، امریکہ کے حامیوں کی بس یہی خواہش ہے۔