سوال : امریکا نے ایرانی اثاثوں کے سلسلے میں جو فیصلہ کیا ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
جواب : دیکھئے ایران کے جو دو ارب ڈالر ضبط کئے گئے ہیں۔ یہ انٹرنیشنل لا کے حساب سے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ غیر قانونی قدم ہے، وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی اس کو عالمی ڈکیتی کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ کسی بھی قوم کے اثاثوں کو عالمی تحفظ ہوتے ہیں اسی لئےاس کی حفاظت ضروری ہے اسی لئے ایران نے اس مسئلے کو بین الاقوامی کورٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام باقاعدہ خط لکھا گیا ہے جس میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ ایک غیر قانونی قدم ہے۔ امریکا کا یہ قدم پوری طرح سیاسی ہے۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کے خلاف ہے کیونکہ ایران نے امریکا سے یہ معاہدہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ معاہدہ دنیا کی چھ بڑی طاقتوں سے ہوا ہے اسی لئے اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور سیکورٹی کونسل کے مستقل نمائندوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کو عملی بنانے کے لئے جو ضروری اقدامات ہیں وہ انجام دین۔ اگر دیکھا جائے تو ایران-عراق جنگ میں امریکا نے عراق کی حمایت کی تھی جس کا اعتراف خود امریکی افسروں نے کیا تھا، اسی طرح اسلامی انقلاب سے پہلے ڈاکٹر مصدق کی حکومت کی سرنگونی میں امریکا ملوث رہا ہے۔ ایران کو بھی ان سب کا تاوان مانگنے کا حق ہے۔ امریکا جامع ایکشن پلان کے عملی ہونے میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ امریکا دوسرے ممالک کو بھی دھمکی دے رہا کہ اگرآپ نے ایران سے تجارت کی تو ایسا ہو یا ویسا ہوگا۔ یعنی یہ سارے اقدام غیر قانونی ہیں، امریکا کو ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے تاکہ جامع ایکشن پلان پر عمل در آمد ہو سکے۔
سوال : امریکا نے ایران کے دو ارب ڈالر کے اثاثوں کو ضبط کرنے کے لئے جو الزام عائد کیا ہے، اس الزام کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب : امریکا نے جو یہ اقدام کیا ہے اس سے اس کی عالمی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ امریکا کے اس اقدام کے بعد کوئی بھی ملک امریکا میں سرمایہ کاری اور امریکا میں پیسے لگانے کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ عالمی اقتصادی قوت کی حیثیت سے بھی امریکا کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ بیروت میں ہونے والا دھماکہ جو 1983 میں ہواتھا، اس عرصے میں امریکا نے کبھی بھی کچھ نہیں کہا لیکن اچانک اتنے عرتصے کے بعد امریکا کو فوجیوں کے اہل خانہ کو تاوان دینے کی کیسے فکر لاحق ہونے لگی۔ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول چھونکنے کے مترادف ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ امریکا یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ انٹرنیشنل پولیس ہے۔ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ جو بھی ملک ان کے ساتھ نہیں ہے، یا ان کی پالیسی میں شامل نہیں یا ان کا اتحادی نہیں ہے، اس کے اثاثے کسی بھی طرح سے بہانے سے ضبط کرنا اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ لبنان میں خانہ جنگی تھی اور مختلف گروپ سرگرم تھے، آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ مذکورہ حملے میں حزب اللہ ملوث تھی۔ اس کے علاوہ امریکا لبنان پر غاصبانہ قبضہ کرنے والا تھا یہ حملہ عام شہریوں پر نہیں بلکہ فوجیوں پر ہوا تھا۔ جب آپ کسی ملک میں فوجی مداخلت کرتے ہیں تو یہ وہاں کے عوام کا رد عمل ہو سکتا ہے، لوگوں رد عمل ہوسکتا ہے، کسی دوسرے گروپ کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ اس کے بارے میں تحقیقات ہوئی اور کسی پر الزام نہیں لگایا جا سکا کہ فلاں گروپ ملوث تھا۔ اس طرح کے گھسے پٹے بہانوں سے کسی ملک کے اثاثوں کو ضبط کرنا کوئی قانوں جواز بھی نہيں بنتا اور اسی لئے امریکا کا یہ قدم غیر قانونی ہے۔
سوال : ایران سے امریکا کی دشمنی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جواب : ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک مستقل حکومت کا قیام ہوا، اس نے ایک آزاد پالیسی اختیار کی ہے۔ جس میں مظلوم مسلم امہ کی حمایت اور دنیا کے مظلوم اور ظلم زدہ ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کی حمایت کو اپنی پالیسی قرار دیا اور ان ممالک کے ساتھ ملک کر سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنائے گا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس نے مسئلہ فلسطین کو اپنی ترجیح قرار دیا اور بین الاقوامی سطح پر اٹھایا۔ مسئلہ فلسطین کو مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا، اسے دوبارہ زندہ کیا۔ امریکا نے سوچا کہ ایران نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس سے اس کی پالیسی کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے، ایران کا سیاسی اور ثقافتی نفوذ علاقے اور علاقے کے باہر بڑھتا گیا، جو امریکا کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی، عراقی عوام کی ایران نے مدد کی، شامی حکومت کی داعش کے خلاف مدد کی، بنیادی طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران کے مواقف کی تعریف کرنا چاہئے تھا، اسے قبول کرنا چاہئے تھا، کیونکہ ایران نے ہمیشہ سے دہشت گرد مخالف پالیسی اختیار کی ہے۔ اسی لئے تمام دنیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کا ساتھ دینا چاہئے۔ ایران سے امریکی دشمنی کا سبب بھی دونوں ملکوں کی پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوناہے۔ دونوں ملکوں کے مواقف تضاد ہیں۔ دشمنی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔