الوقت - اب جبکہ امریکی صدارتی انتخابات اہم موڑ پر پہنچنے والے ہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اب سے کم و بیش آٹھ سال پہلے باراک اوباما نے عنان اقتدار سنبھالا تھا، اس وقت ان کے کیا دعوے اور وعدے تھے اور ان میں سے کتنے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل ہوئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اوباما نے "تبدیلی" کا نعرہ بلند کیا۔
تبدیلی امریکا کی تبدیلی، امریکی پالیسیوں کی تبدیلی، امریکی حکمت عملی کی تبدیلی، بقیہ دنیا سے امریکا کے تعلقات کی اور تبدیلی امریکا کے تعلق سے عالمی سطح پر پائے جانے والے تائثر کی۔ اوباما نے ووٹ حاصل کیا اور اسی "تبدیلی" کی بنیاد اور نعرےپر اپنی کامیابی کے بعد بھی انھوں نے یہی اشارہ دیا کہ وہ امریکا کو بڑی واضح تبدیلی سے ہمکنار کرنا چاہیں گے لیکن آٹھ سال کا طویل عرصہ گرز جانے کے باوجود صورتحال ڈھاککے تین پات جیسی ہے۔
مسلم دنیا میں اگر کسی مسئلے پر عرصہ دراز سے بے چینی اور تشویش ہے تو وہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ 68 برسوں کے حالاات سے ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صیہونی قیادت حد درجہ جارحیت پر یقین رکھتی ہے، جانبداری اور تعصب اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس کے رہنما امریکا اور اقوام متحدہ کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں، عالمی ادارے کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے اور اپنے مشن سے ہٹ کر انسانی، اخلاقی اور قانونی نقطہ نظر سے بیان کی جانے والی کوئي بھی بات تجویز، مشورہ اور منصوبہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ یہی ان کی اب تک کی تاریخ ہے، ان رہنماؤں نے انتہائی مخدوش حالات میں بھی دنیا بھر سے اٹھنے والی ان کی آوازوں پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جن میں سے کئی ایسی تھیں کہ اسرائیل کی دشمن یا فلسطینی کی دوست نہیں تھیں۔ یہ ہٹ دھرمی اسرائیل کی تاریخ کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ تازہ خبر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی ہےجس نے وادی گولان پر صیہونی حکومت کے قبضے کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس اجلاس میں چین کے سفیر نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ 1981 کی قرارداد میں وادی گولان کو متنازع علاقہ قرار دیا گیا تھا اور اس کی متنازع ہونے کی حیثیت اب بھی برقرار ہے جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ، اسرائیل کو اس کے عزائم سے باز رکھ سکتا ہے؟ افسوس کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ عالمی ادارہ نے اس وقت بھی اس مختصر سی ناجائز حکوکمت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جب اس نے عالمی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس کی متعدد وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اسے ہمیشہ نام نہاد سپر پاور امریکا بہادر اور دیگر مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ افسوس کہ اوباما کے دو میعاری دور صدارت میں بھی اسرائیل وہی سب کچھ کرتا رہا جو اس نے سابقہ صدور کے دور میں کیا تھا۔
دو سال قبل کی غزہ جنگ کے دوران بھی اوباما کی سربراہی میں امریکا خاموش تماشائی بنا رہا جب معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا، ان کے گھروں پر بمباری کی گئی جبکہ بین الاقوامی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ جہاں تک ہمیں یاد ہے، جب عالمی طاقتیں اسرائیل کی شدید جارحیت کے خلاف منمناتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھیں تب امریکا پوری قوت کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہوا بلکہ جنگ تھمنے سے پہلے ہی اس نے صیہونی حکومت کے لئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ یہ اور ایسے کئی تماشے اوباما کے دور اقتدار میں امریکا کی جانب سے ہوتے رہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والے اوباما اپنے پیش رؤوں سے مختلف تھے؟ کیا تبدیلی آئی ان کی وجہ سے ؟ وہ تو مسلم ملکوں سے اپنے ملک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے وعدے بھی پورا نہیں کر سکے۔ تعجب ہے کہ یہ لوگ اپنے وعدوں کو پورا نہ ہونے پر شرمسار تک نہیں ہوتے !