الوقت - تحریک مزاحمتِ کشمیر کے بزرگ رہنما ،مرحوم مقبول بٹ کے قریبی ساتھی اور لبر یشن فرنٹ کے بانی رکن امان اللہ خان راولپنڈی پاکستان میں منگل کے روز 84 برس عمر میں انتقال کر گئے ۔
مرحوم کی نماز جنازہ بدھ کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ادا کی جائے گی،جبکہ کشمیر میں لبریشن فرنٹ کی جانب سے آج غائبانہ نماز جنازہ لالچوک میں نماز ظہر کے بعد ادا کی جائے گی ممتاز کشمیری رہنماء اور لبریشن فرنٹ کے بانی رکن امان اللہ خان طویل علالت کے بعد منگل کو راولپنڈی میں انتقال کر گئے۔صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ کے وائس چیئرمین سلیم ہارون نے امان اللہ خان کے انتقال کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم کی نماز جنازہ کل لیاقت باغ راولپنڈی میں ادا کی جائے گی۔مرحوم کی عمر84 سال تھی ۔ ساری زندگی انہوں نے ریاست جموں وکشمیر کی خود مختاری اور آزادی کے لئے جدوجہد کی۔ وہ تین جلدوں پر مشتمل شہرہ آفاق کتاب جہد مسلسل کے مصنف تھے علاوہ ازیں انہوں نے ہزاروں مضامین لکھے اور پمفلٹ شائع کئے۔ ریاست کے آر پار اور پاکستان میں ان کی رحلت کے سبب غم کی لہر دوڑگئی ہے۔ مرحوم امان اللہ کون تھے؟امان اللہ خان گلگت کے استور علاقے میں 24 اگست 1934کو پیدا ہوئے ۔1940 میں وہ تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے وارد کشمیر ہوئے۔ 1950 میں امان اللہ خان نے کشمیر یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔اس کے بعد تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے امان اللہ خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پہلے ایس پی کالج اور بعد میں امر سنگھ کالج سرینگر میں داخلہ لیا ۔1952میں کشمیر سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے جہاں انہوں نے ایس ایم کالج کراچی سے 1957میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
امان اللہ خان نے 1962میں لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر امان اللہ خان نے سیاست میں قدم رکھا اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔1963میں امان اللہ خان کشمیر انڈپنڈنٹ کمیٹی کے بانی رکن مقرر ہوئے،1965میں وہ جے کے پلبسائٹ فرنٹ ’پی ایف‘ کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے ۔ انہوں نے بعد میں محمد مقبول بٹ کے ساتھ مل کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد ڈالی ۔امان اللہ خان نے 1970-72 میں گلگت میں 15ماہ کی سزا کاٹی ان پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام تھا ۔ مرحوم شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے بعد پاکستانی زیر انتطام کشمیر میں 1965 میں قائم ہونے والی تنظیم محاذ رائے شماری کے سیکڑٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1970-72 میں وہ گلگت بلتستان جیل میں قید رہے1976 میں انگلینڈ چلے گئے۔جہاں انہوں نے 1977 میں جے کے ایل ایف کی بنیاد رکھی۔ اُنہیں 1985 میں برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 1986 میں انہیں پاکستان ڈیپورٹ کردیا گیا۔ 1993 میں وہ برسلز میں گرفتار ہو ئے اور برسلز سے بھی واپس ڈیپورٹ کردئے گئے۔1991 میں امان اللہ خان نے ایک جلاوطن حکومت کا اعلان کرکے ایک نئے باب کا اضافہ کیا جبکہ 1992 خونی سرخ لکیر کو توڑنے کا اعلان کیا اور اسے عملانے کیلئے ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کے ہمراہ مظفرآباد سے چکھوٹی کی جانب روان دواں ہوئے۔ اس کے بعد جاں بحق اشفاق مجید وانی ؒ کی برسی کے موقع پر بھی خونی لکیر کو روندھنے کی ایک اور سعی کی جسے پاکستانی حکومت نے روک دیا۔ امان اللہ خان ایک متحرک شخصیت اور آزادی کیلئے مسلسل کام کرتے رہنا ان کا خاصہ تھا۔ادھر لبریشن فرنٹ کی جانب سے موصولہ بیان کے مطابق جموں کشمیر کی تحریک آزادی کے سرخیل ، آزادی و خودمختاری کے نقیب،جہد مسلسل کے قیل و قال،عظیم قائد و رہبراور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم قائد جناب امان اللہ خان آج صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔مرحوم کی نماز جنازہ کل صبح گیارہ بجے راولپنڈی لیاقت باغ میں ادا کی جائے گی جبکہ ان کی جسد خاکی کو انکی وصیت کے مطابق گلگت عیدگاہ میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
مرحوم و مغفور قائد کے حق میں کل مورخہ 27؍ اپریل 2016 کو سرینگر کے لال چوک میں نماز ظہر کے بعد نماز جنازہ غائبانہ بھی ادا کی جائے گی جس میں مرحوم قائد کے مداح ،زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، لبریشن فرنٹ نیز دوسری جملہ حریت پسند جماعتوں سے وابستہ افراد بڑی تعدا د میں شرکت کریں گے (ان شاء اللہ)۔لبریشن فرنٹ کے چیئرمین جناب محمد یاسین ملک جو آج صبح دہلی روانہ ہوگئے تھے اور علاج و معالجے کی غرض سے ہسپتال میں داخل کئے گئے تھے مرحوم قائد کے وفات کی اطلاع ملتے ہی ہسپتال سے رخصت لے کر واپس سرینگر واپس آچکے ہیں۔ دہلی واپسی کے بعد لبریشن فرنٹ کے دفتر پر منعقدہ ایک تعزیتی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے غم زدہ یاسین صاحب نے کہا کہ آج کشمیر کی تاریخ کا ایک غم ناک دن ہے کیونکہ آج اس سرزمین نے اپنے ایک بے مثال سپوت کو کھو دیا ہے۔ یاسین صاحب نے کہا کہ جناب امان اللہ خان کی وفات سے ایک باب بند ہوگیا ہے اور ایک تاریخ اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ مرحوم جموں کشمیر کی تحریک آزادی کے سرخیل ،آزادی و خود مختاری کے نقیب، جہد مسلسل کے قیل و قال اور ایک عظیم قائد تھے جنہوں نے اپنی جوانی سے لیکر وفات کی گھڑی تک جموں کشمیر کی آزادی کیلئے تگ و دو کی اور کبھی بھی اس راہ میں کوئی تساہل،تغافل یا لغزش نہیں دکھائی۔
مرحوم قائد ایک شفیق انسان ،ایک اعلیٰ تریں دانشور، ایک پُرجوش خطیب، ایک پُرمغز قلم کار،ایک استاد، ایک لیڈر اور سیاسی مفکر اور بہترین سفارت کار تھے۔ انہوں نے بے شمار کتابیں ، پمفلٹ،کتابچے اور کالم تحریر کئے اور بحیثیت ایک صحافی بھی جموں کشمیر کی آزادی کے نقیب بنے رہے ۔ امان اللہ خان ایک سیاسی مفکر کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی ایک خاصے متحرک شخصیت تھے۔ وہ پہلے اور واحد کشمیری ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کے اندر پریس کانفرنس کی اور کشمیر کاز کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ہا ل میں بھارتی مندوب کی تقریر کے دوران کشمیری کی آزادی کے تعلق سے پمفلٹ تقسیم کئے اور ایک تہلکہ مچادیا۔ مرحوم قائد کی بے شمار خوبیوں اور بے پناہ عظمتوں کا شمار اگرچہ ناممکن ہے لیکن2011 میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی صفوں کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی غرض سے انکی کاوشیں تاریخ ساز اہمیت کی حامل تھیں ۔
مرحوم قائد اپنی گوناگوں صلاحیتوں ، جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ اور قربانیوں کے باوصف اپنے چھوٹوں کے ساتھ انتہائی شفیقانہ برتاؤ رکھتے تھے اور یہی شفیق و رفیق برتاؤ اور تحریک کو نئی نسل کے اندر منتقل کردینے اور اسے حصول منزل تک جاری رکھنے کا جذبہ تھا کہ انہوں نے خود کاوشیں کرکے لبریشن فرنٹ کے کارواں کو دنیا بھر میں ایک کردیا اور اسے متحد کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔