الوقت - حالیہ دنوں میں ہارٹض، اسرائیل ٹو ڈے، واللا، یدیعوت آحارنوت جیسے صیہونی حکومت کے اہم اخـباروں نے یہ خبر شائع کرکے کہ حماس اپنی میزائيلی، سمندری اور چھاپہ مار توانائی کو مضبوط کرنے کے درپئے ہے، اسرائیل کے ساتھ حماس کی چوتھی جنگ کی پیشنگوئی کی ہے۔
اسرائیلی ٹی وی چینل - 10 نے 24 اپریل 2016 کی اپنی رپورٹ میں غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں اور بلڈوزروں کی موجودگی نیز اس علاقے سے شہریوں کے انخلاء پر مبنی رپورٹ نشر کی اور ان اقدامات کو خاص فوجی کاروائي کا مقدمہ بتایا گیا جس کا مقصد حماس پر صیہونی حکومت کی حتمی کامیابی اور غزہ پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ 19 اپریل 2016 کو صیہونی حکومت نے مقبوضہ اشکول شہر کے نزدیک حماس کی سب سے طولانی سرنگ کا انکشاف کیا جس سے صیہونی حکام کی تشویش میں اضافہ ہو گیا۔ اسی تناظر میں اسرائیل کے تعمیراتی امور کے سابق وزیر اور جنوبی علاقے کے کمانڈر یواف گلنت نے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی مہم شروع کئے جانے کا مطالبہ کیا۔ اس حکومت کی تشکیل کے وقت سے ہی صیہونی حکام کی ہمیشہ سے اپنی سیکورٹی اور فلسطینوں کے تمام مسائل پر نظر رکھنے کی کوشش رہی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی معاشرہ بری طرح بکھراؤ کا شکار ہے۔ کچھ دن پہلے ہی ہی اسمیت نامی ادارے سے سروے جاری کیا۔ یہ سروے فلسطینوں کی جانب سے چاقوؤں سے حملے شروع کئے جانے کے چھ مہینے بعد اسرائیل کی داخلی سیکورٹی کے بارے میں لیا گیا۔ اس اعداد و شمار میں 56 فیصد صیہونیوں نے کہا کہ وہ فلسطینوں کے حملوں کے خوف سے اپنی روزانہ کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ پا رہے ہيں جبکہ 56 فیصد اسرائیلوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران ان کی داخلی سیکورٹی کی سطح بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔
در ایں اثنا اس سروے میں شامل ایک شخص گالیت نے جو یافا کی سڑک پر آزاد کام کرتا ہے، کہا کہ اب تیسرا انتفاضہ شروع ہو چکا ہے اور یہ کہنا چاہئے کہ گزشتہ انتفاضہ ہمارے لئے بدترین تھا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ مقبوضہ علاقے میں ایک طولانی سرنگ کے انکشاف نے صیہونی حکوم اور کالونیوں کے رہنے والوں کی نیندیں اڑا دی ہيں۔ اسی بنا پر اسرائیلی فوج نے حماس کے احتمالی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے غزہ کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں کیں۔ یہ فوجی مشقیں 2014 سے اب تک کی سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں جس میں حماس کے فرضی حملوں کو نشانہ بنانے اور اس کو پسپا کرنے کے راستوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس دفعہ صیہونی میڈیا بھی پروپیگینڈے میں پیچھے نہیں رہا اور اس نے اپنی متعدد رپورٹوں میں اس بات پر تاکید کی کہ اس بار کا حملہ دفاعی نہیں بلکہ ہجومی ہوگا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی فوج کے انفارمیشن شعبے کے کمانڈر ہرتسی ہالیوی نے کنسٹ کی خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ غزہ کی حالت بدتر ہو رہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا غصہ اسرائیل کے خلاف پھوٹنے ہی والا ہے۔ 2014 کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیراتی نو کا کام بہت سستی سے جاری ہے اور غزہ کے مختلف علاقوں کی تعمیر نو، اسرائیل کے ساتھ جنگ پر منتج ہو سکتی ہے۔ غزہ کی سخت صورتحال کے باوجود حماس، اسرائیل سے جنگی کی پوزیشن میں نہیں ہے اور وہ غزہ پٹی کے ديگر گروہوں پر تسلط قائم کرکے سرحدی علاقوں کے حالت کو کشیدہ ہونے سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔
بہرحال یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ کے محاصرے کو کم کرنے کی کوشش نہيں کرے گا تو حماس کے پاس بھی اس حکومت سے جنگ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہيں ہے اور اس بات کے مد نظر کے حماس کی فوجی ونگ مضبوط اور طاقتور ہے وہ سیاسی رہنماؤں سے فیصلے کی قوت لے کے غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے لئے اقدامات انجام دے سکتی ہے۔ ان حالات میں ایسا محسوس نہيں ہوتا کہ صیہونی حکومت غزہ کی ماضی کی جنگوں کے تجربات سے وسیع پیمانے پر فوجی اقدامات کرے اور ممکن ہے کہ چھوٹی موٹی جھڑپوں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ داخلی سیکورٹی پوری طرح کنٹرول میں ہے۔