الوقت - دس سال کی طویل قانونی جنگ کے بعد مالیگاؤں بم دھماکوں کے الزام میں پھنسائے گئے تمام بے قصور مسلم ملزمین نے پیر کو اس وقت راحت کا سانس لیا جب سیشن کورٹ نے انہیں مقدمے سے ڈسچارچ کرنے کا فیصلہ سنایا۔
یہ فیصلہ اے ٹی ایس اور اس کے سابق سربراہ رگھوویشی کے لئے تازیانہ ہے جس نے مذکورہ ملزمین کو بے جا گرفتار کرنے کے بعد کیس حل کر لینے کا دعوی کیا تھا۔
کیا تھا معاملہ
8 ستمبر، 2006 کو مالیگاؤں میں ایک مسجد، قبرستان اور مارکیٹ میں ہوئے دھماکوں میں 37 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ تقریبا ایک ماہ بعد اے ٹی ایس نے 9 افراد کو گرفتار کیا۔ دعوی کیا گیا کہ یہ تمام سیمی کے رکن ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب کرنے کے لئے یہ دھماکے کئے گئے۔
اے ٹی ایس سے جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ اس کے بعد قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اس کے بعد سے تحقیقات کی سمت ہی بدل گئی اور واقعہ کے پیچھے ہندو تنظیم کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آئی۔ 2011 میں این آئی اے نے واضح بھی کر دیا کہ وہ ان ملزمان کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرے گی۔
ہندوستان کی ریاست مہاسٹرا کے مالیگاؤں بلاسٹ 2006 میں بھگوا دہشت گردوں کا ہاتھ اسی وقت نظر آگیا تھا جب آنجہانی ہیمنت کرکرے کی ٹیم نے 2008 کے بم دھماکوں کے الزام میں سادھوی پرگیہ، کرنل پروہیت اور ان کی ٹیم کو گرفتار کیا تھا تاہم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی حیدرآباد کی جیل میں قید سوامی اسیمانند کے اقبال جرم سے ہوا تھا۔ اسیمانند نے مجسٹریٹ کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت دیئے گئے اقبالیہ بیان میں اجمیر شریف، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ مالیگاؤں کے دونوں بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا۔ اسیما نند نے یہ اقبالیہ بیان حیدرآباد کی جیل میں مکہ مسجد بلاسٹ کیس میں پھنسائے گئے ایک مسلم نوجوان کی سادگی اور حسن سلوک سے متاثر ہوکر دیا تھا۔
پیر کو عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد سے اے ٹی ایس کے سابق سربراہ رگھوویشی کا موبائیل فون مسلسل بند آ رہا تھا۔ مالیگاؤں 2006 کے بم دھماکوں کی چانج ان کی قیادت میں ہوئی تھی۔ تفتیش کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو مسترد کرتے ہوئے آور آخر تک اپنے موقف پر قائم رہے کہ مذکورہ مسلم نوجوان ہی اصل قصوروار ہیں۔
واضح رہے کہ ماليگاؤں کے مشاورت چوک اور بڑا قبرستان میں ہونے والے دھماکے میں 37 افراد جاں بحق اور سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ کورٹ نے کئی برسوں تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے 8 نوجوانوں کو تقریبا 10 سال بعد کیس سے ڈسچارج کیا ہے۔