کیا افغان امن مذاکرات میں ہندوستان کے شامل ہونے سے حالات بدل جائیں گے
الوقت - تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے امور میں امریکا کے خـصوصی ایلچی نے ہندوستان کا دورہ کیا ہے تاکہ افغانستان کے چار فریقی امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لئے نئی دہلی کو دعوت دیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ چار ممالک امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان، ایک بار افغانستان میں امن عمل کے برقرار رکھنے کے لئے مذاکرات پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ اس بات کے مد نظر کہ پاکستان اور افغانستان کے امور میں امریکا کے خصوصی نمائندے ریچرڈ اولسن نے ہندوستان کا دورہ کیا، ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان، افغانستان میں امن کے قیام میں زیادہ کردار ادا کرسکتا ہے ؟
اس رپورٹ کے مطابق، چار فریقی مذاکرات میں شرکت کرنے والے اس مسئلہ کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ایران، روس اور ہندوستان جیسی علاقے کی طاقتوں کو بھی ان مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ ہندوستان کے کچھ میڈیا ذرائع نے افغاستان اور پاکستان کے امور میں امریکا کے خصوصی نمائندے کی دورہ ہندوستان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ امریکا، ہندوستان کو امن مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ ابھی تک افغانستان اور آمریکا کے نمائندوں نے مذاکرات کے عمل میں ہندوستان کو شامل کر رکھا تھا۔ جنرل اولسن جو اس وقت نئی دہلی میں ہیں، ہندوستان کے سکریٹری خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سیکورٹی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے ملاقات کریں گے۔ یہ بیان ایسی حالت میں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے ابھی حال ہی میں اعلان کیا تھا تھا کہ افغانستان کے بارے میں چار فریقی امن مذاکرات اسلام آباد میں منعقد ہوں گے۔
پاکستان، ہندوستان کی شمولیت کی مخالفت کر سکتا ہے
ممکنہ طور پر مذاکرات میں ہندوستان کی شمولیت کی پاکستان مخالفت کرسکتا ہے۔ افغانستان امن مذاکرات میں شرکت کے لئے افغانستان اور پاکستان کے امور میں امریکا کے خصوصی ایلچی کی جانب سے ہندوستان کو دعوت دیئے جانے کے سبب، پاکستان واضح طور پر امریکا کے اس قدم کی مخالفت کر سکتا ہے۔ رپورٹوں کی بنیاد پر افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی ہندوستان کے لئے ریڈ لائن تصور کی جاتی ہے۔ ہندوستان پہلی بار افغان حکومت کو حملہ آور ہیلی کاپٹر دے کر سیکورٹی میدان میں داخل ہو چکا ہے جو ابھی تک اس میدان سے دور تھا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا یہ اقدام اور افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان تشویش میں مبتلا ہو گیا ہے۔ افغانستان میں صدر مملکت اشرف غنی کے بر سر اقتدار آنے سے زمانے سے ہی انھوں نے پاکستان کے ساتھ نزدیکی تعلقات کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں۔
ٹریننگ کے لئے افغان کیڈیٹ کو پاکستان بھیجنا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے افغان قیدیوں سے تحقیقات کی اجازت دینا اور پاکستان کی فوج درخواست پر افغانستان میں فوجی آپریشن، اسلام آباد سے نزدیک ہونے کے لئے اشرف غنی کی کوششوں کے حصے تھے لیکن افغان صدر نے بارہا اعلان کیا ہے کہ افغان جنگ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نیابتی جنگ یا پروکسی وار ہے۔
افغانستان کے سیاسی امور کے تجزیہ نگار اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے اس سے پہلے افغان صدر کے سفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے تقریبا سات مہینے بعد ہندوستان کا سفر کیا اور یہ ہندوستانی حکام کی نظروں کو جذب کرنے سے لئے بہترین موقع تھا۔ فیضی نے کہا کہ حکومت کابل نے حالیہ مہینوں میں پاکستان سے نزدیکی پر مبنی اپنی خارجہ پالیسیوں میں اساسی تبدیلی کرکے نئی دہلی کو متفاوت پیغام دیئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغان صدر نے اس دورے میں ہندوستانی حکام کو یقین دلایا کہ اسلام آباد سے اچھے تعلقات سے افغانستان میں نئی دہلی کے مثبت اور مہم کردار پر سوالیہ نشان نہیں لگے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے لئے افغان صدر کا پیغام بہت ہی شفاف اور پوری طرح واضح تھا کہ ہندوستان، افغانستان کا اسٹراٹیجک اتحادی بنا رہے گا۔ پاکستان کے برخلاف افغان صلح مذاکرات میں ہندوستان کی موجودگی کی امریکا حمایت کرتے گا۔
مذاکرات میں شرکت کے لئے طالبان کا رجحان
ملا عمر کی موت کے بعد ملا اختر منصور کو طالبا کا سربراہ منتخب کیا گیا اور طالبان کے زیادہ تر ارکان نے ان کی بیعت کر لی لیکن کچھ علاقائی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جانشینی کے سبب طالبان گروہ میں ہونے والے اختلافات سے یہ گروہ بکھراؤ کا شکارہو گیا۔ کجھ ہی دن پہلے طالبان نے اپنی باضابطہ سائٹ پر فوجی شورای کے کمانڈر اور طالبان گروہ کے ایک اعلی رکن عبد القیوم ذاکرکی بیعت کی اطلاع دی۔ ذاکر نے اس بیان میں کفار کے حلاف مزاحمت اور اسلامی حکومت کی تشکیل پر تاکید کرتے ہوئے طالبان کے درمیان اتحاد و یکجہتی پر تاکید کی۔ اس بیان میں آیا ہے کہ ملا اختر منصور شریعت کے پابند ہیں اوران کی بیعت کا اعلان کرتے ہیں۔