الوقت - خبررساں ایجنسی روئٹرز نے لبنان سے سعودی عرب کی تلخ جدائی کے موضوع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے اور اس میں سعودی عرب کی جانب سے لبنان سے تعلقات کو کم کرنے کے فیصلے کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔
روئٹرز نے حالیہ دونوں میں سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط میں شائع ہونے والے لبنان مخالف کارٹوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کارٹوں اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ لبنان سے سعودی عرب کتنا زیادہ ناراض ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تعلقات میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب سعودی عرب نے لبنان کو تین ارب ڈالر کی فوجی مدد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ خبر رساں ایجنسی یہ بیان کرتے ہوئے کہ ریاض کے اس فیصلے سے لبنان میں حزب کا مقام اور اس کی منزلت مزید مضبوط ہوگا۔ اخبار نے یورپ کے ایک اعلی سفارتکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہم عملی طور پر لبنان کو ایران کے حوالے کر رہے ہیں، یہ لبنان کے لئےبہت بڑا نقصان ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے اقدامات سے لبنان میں حزب اللہ اور اسی طرح تہران کے مقام کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گا۔
روئٹرز نے بیروت اور ریاض کے تعلقات میں کشیدگی نیز لبنان میں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنے کے لئے سعودی عرب کے فیصلے کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ خلیج فارس کے ساحلی ممالک کی نظر میں سعودی فرمانروا کے اقدامات، لبنان میں کی جانے والی کوششوں میں کمی سے پیدا ہونے والے حالات پر منطقی نظر ثانی اور لبنان میيںي اپنے کمزور اتحادیوں سے ریاض کی ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ اخبار آگے لکھتا ہے کہ حکمت عملی کی ترجیحات یہ ہے کہ لبنان، شام، یمن اور عراق کے مقابل میں ناامنی کی نچلی سطح پر رہے ۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے نزدیکی سیکورٹی تجزیہ نگار مصطفی الانی کا کہنا ہے کہ لبنانی فوج کی مدد، اس بنا پر ہو رہی تھی کہ اس کام سے حکومتی ادارے مضبوط ہوں اور ان کو اس بات کی اجازت دی کہ غیر حکومتی اداروں کے لئے چیلنز کھڑا کر دیں لیکن اس طرح ہوا نہیں۔
روئٹرز نے ریاض میں موجود ایک سفارتکار کے حوالے سے لکھا کہ سعودی عرب اپنے لبنان میں اپنے اصل اتحادی سعد حریری کی کارکردگی سے بھی ناخوش ہے۔ اس کے ساتھ ہی لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ ریاض کا یہ فیصلہ، اسٹراٹیجک فیصلے سے پہلے حساس اقدامات ہے۔ بیروت میں امریکی یونیورسٹی کے اعلی رکن رامی خوری کا کہنا ہے سعودی عرب کے حکام میں بہت زیادہ مہارت ہیں لیکن سیاست اور سفارتکاری اس مہارت کا جز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت وہ بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں، ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور یہ بہت ہی خطرناک ہے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بہت کی خطرناک اقدامات اور فضولی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ خوری کا کہنا تھا کہ وہ جو اقدامات کر رہے ہیں ممکن ہے کہ اسے لبنانی بہت زیادہ غم و غصے میں مبتلا ہو جائیں اور وہ ایران اور حزب اللہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کر لیں۔ آج ملک کے دفاع کے لئے حزب اللہ ضروری ہے۔
روئٹرز نے 2006 میں اسرائیل سے جنگ کے دوران ملک کی حفاظت میں حزب کے دفاع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لیکھا کہ حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے حالیہ خطاب میں سعودی عرب کا مذاق اڑایا اور کہا کہ اس ملک سے گزشتہ ایک عشرے سے حزب اللہ کو حاشیے پر لگانے سے لئے بہت زیادہ پیسے خرچ کئے لیکن شام، یمن اور بحرین میں اس کو نقصانات اٹھانے پڑے اس سے بہت زیادہ ناراض ہو گیا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے مارچ کے شروعات میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ جی ہاں، سعودی عرب ہم سے بہت ناراض اور نالاں ہے۔ ان کی ناراضگی کا سبب پتا ہے آپ کو؟ چونکہ جب کوئی شکست کھاتا ہے کو اس پاس ناراض ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔
روئٹرز نے اپنے آخر میں الشرق الاوسط میں لبنان کے خلاف کارٹون شائع کرنے اور بیروت میں العربیہ کے دفتر کو بند کرنے سمیت سعودی عرب کے اقدامات پر لبنانی عوام کے غم و غصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس ہفتے لبنان کی ایک شاہرارہ پر بینر لگا ہوا تھا جس پر سعودی عرب کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اس بینر میں خون الودہ شمشیرایک آدمی کے سر کے پاس، جس کو موت کے گھاٹ اتارا جانا ہے، دکھائی گئی اور اس کے پاس ہی لکھا تھا (قاتل آل سعود)۔