الوقت - پیر کی شام کو روس کی قیادت نے شام میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد کیا ہے اور اس موقع پر روس کے اس فیصلے سے شام کے بحران پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کے کم سے کم تین جواب سوچے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ روس نے شام میں اپنی فوجی موجودگي کے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور اسی لیے اس نے اس ملک سے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کا یہ اقدام، ایک مرحلے کا خاتمہ اور دوسرے مرحلے کا آغاز ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ روس نے شام میں اپنا موقف ہی تبدیل کر دیا ہے اور اب اس کی جانب سے نئي پالیسی دیکھنے میں آئے گی۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ شام سے روس کے اچانک انخلا کا مطلب یہ ہے کہ ماسکو، شام میں زمینی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کی طرف سے مایوس ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں روس کی فوجی موجودگي سے پہلے تک اس ملک کے حالات بند گلی میں پہنچ چکے تھے اور صرف دہشت گردوں کو کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں۔ میدان جنگ میں روس کے شامل ہونے کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ زمینی حالات شام کی حکومت کے حق میں بدل گئے بلکہ دو اہم باتیں بھی سامنے آئيں۔ اول یہ کہ علاقائي اور عالمی سطح پر داعش کے خلاف جنگ کے لیے نئي سرگرمیاں شروع ہوئيں اور کرد گروہوں کی حمایت سے داعش کا محاصرہ تنگ ہونے لگا اور دوسرے یہ کہ بشار اسد حکومت کے مخالفین، عالمی امن مذاکرات کے تناظر میں اس حکومت سے گفتگو پر مجبور ہوئے۔ ان دونوں باتوں نے شام کے زمینی حقائق کو کافی شفاف کر دیا اور بشار اسد حکومت کے مخالفین کے درمیان انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کی ایک واضح لائن کھینچ دی گئي۔ روس نے شروع ہی سے کہا تھا کہ فوجی اقدام، سیاسی اور سفارتی اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی حالات سازگار ہوئے، روس نے شام کے بحران کے حل کے لیے متعدد سفارتی حل پیش کر دیے۔ بنابریں ایسا لگتا ہے کہ روس، شام میں اپنی فوجی موجودگي کے زیادہ تر اہداف حاصل کر چکا ہے اور اسی لیے اس نے شام سے اپنی فوجی موجودگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔