س : شام سے روسی فوجیوں کے انخلاء پر آپ کا رد عمل کیا ہے؟
ج : میں سمجھتا ہوں کہ روس کے سامنے افغانستان کا ایک بہت بڑا ایشو ہے جو اس کی تاریخ کو داغدار کرتا رہتا ہے کہ اس نے کس انداز سے مداخلت کی تھی اور اب اگر وہ اس علاقے میں آیا ہے اور اس نے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے لیکن فوری طور پر روسی فوجیوں کے شام سے نکلنے کی بات ہو رہی ہے، میرا یہ خیال ہے کہ روس نے یہ قبول کر لیا ہے کہ سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی ادارے اور بااثر ممالک کہہ رہے ہیں کہ شام میں امن قائم ہونے والا ہے اور کوئی بھی وہاں فوجی کاروائی نہیں کرے گا، تو اس نے علامتی طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ ابنی فوجیں واپس نکال رہا ہے، ہاں اس نے اپنے فضائی حملوں کے ذریعے داعش کی جو کمر توڑ دی تھی اور اس نے اس بات کا بھی انکشاف کر دیا تھا کہ کس طرح داعش کا تیل ترکی قافلوں کی شکل میں لے جایا جاتا تھا، اور اس کو بھی اس نے تباہ و برباد کر دیا تو اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ شام میں روس کے زیادہ تر مقاصد تھے وہ پورے ہوگئے۔ اس کی ائیرفورس موجود ہوگی اور یقینا وہ اس سانپ کا سر کچل کر ہی دم لے گا۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ روسی فوجیوں اور روس کی زمینی فوج کا زیادہ کردار تھا ہی نہیں، اور اگر وہ واپس چلی بھی جاتی ہیں تو جنگ شام پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اگر روسی فوجی شام سے نکلتے ہیں اس سے جنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر سعودی عرب نے اتنے زیادہ پیسے خرچ کرکے جو کئی ممالک کی فوجیں جمع کی ہیں اور کہا یہ ہے کہ یہ داعش کے خلاف ہے، کیا وہ بھی اپنا کام کرے؟ میں نہیں سمجھتا کہ روسی زمینی فوج کے نکلنے سے جنگ کے حالات میں کوئی تبدیلی آئے گي یا یہ فیصلہ، بشار اسد کی فوج کے حوصلہ پست ہونے کا سبب بنے گا، شامی فوج اور عوامی رضاکاروں کو تو بہت زیادہ کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ وہاں پر بشار اسد کی فوج، حزب اللہ کے جوانوں اور قبائلی رضاکار داعش، القاعدہ اور نصرہ فرنٹ کو مسلسل شکستیں دے رہے ہیں اور نئے علاقے آزاد کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ روسی کی زمینی فوج کے جانے سے جنگ کے حالات میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہو گی اور نہ ہی یہ کسی بڑی اسٹراٹیجی کا حصہ ہے۔