الوقت - شام کے صدر کی سیاسی امور کی مشیر بثینہ شعبان نے کہا کہ شام سے فوجیوں کے انخلاء کے لئے ماسکو کا فیصلہ، دمشق سے مشورت کے بعد کیا گیا ہے۔
انہوں نے المیادین ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ شام سے فوجیوں کا انخلاء ہمارے لئے حیران کن نہیں تھا اور یہ فیصلہ دمشق اور وابسطہ عہدیداروں سے مشورت کے بعد کیا گیا ہے۔
بشار اسد کی میڈیا انچارج نے روس کو شام کا گہرا دوست اور اتحادی ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس کی فوجیوں کی واپسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ شام نہیں آ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی فوج اب تک ملی کامیابیوں کو محفوظ رکھنے میں پوری توانائی رکھتی ہے اور ساتھ ہی نئے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی طاقت رکھتی ہے۔
بثینہ شعبان کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کو چاہئے کہ ترکی اور سعودی عرب پر تکفیری دہشت گردوں کی حمایت بند کرنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ اب گیند امریکہ کے پالے میں ہے اور اگلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ امریکہ ترکی اور سعودی عرب پر دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کے لئے دباؤ ڈالے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر ممکن ہے کہ حدود کو بند کر دیا جائے اور دہشت گردوں کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
دوسری جانب ایران کی اعلی قومی سلامتی کے سکریٹری علی شمخاني نے کہا ہے کہ شام سے روسی فوجیوں کا انخلاء ، مکمل ہماہنگی اور پہلے سے معین پروگرام کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی طرح سے غیر متوقع قدم نہیں ہے۔
انہوں نے ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے جدوجہد رکی نہیں ہے اور یہ عمل بدستور جاری ہے۔ علی شمخاني نے کہا کہ ایران اور روس کے مشیروں کی مدد سے ان علاقوں میں فوج کی پیشرفت جاری ہے جہاں پر دہشت گرد، عوام اور علاقے کی حفاظت کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
علی شمخاني نے کہا کہ شام کا مستقبل صرف اس ملک کے عوام تعین کر سکتے ہیں اور ہر وہ منصوبہ جو اس موضوع کو نظر انداز کرے گا، ماضی کی مانند ناکام رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ شروع سے ہی علاقے میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے امریکیوں اور صیہونیوں کا منصوبہ تھا جس کے تحت شام کی حکومت کو کمزور کرنا تھا۔ اس منصوبے میں علاقے کے کچھ ایسے ممالک نے تعاون کیا جن کا جمہوریت سے دور دور تک کا ناطہ نہیں ہے۔