الوقت- صدر مملکت نے ترکی کے وزیر اعظم احمد داوو اوغلو سے ملاقات میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران اور ترکی بے شمار یکساں دینی اور ثقافتی نظریات رکھنے والے دو بھائي اور ہمسایہ ممالک ہیں، کہا کہ دونوں ملکوں کے مذہبی نظریات، خطے کے بعض تشدد پسند ممالک سے پوری طرح الگ ہیں اور آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا قیام، سبھی کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران اور ترکی دو ایسے اہم ہمسایہ ممالک ہیں جو عالم اسلام میں اتحاد کے لیے تعمیری اور مؤثر قدم اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تہران اور عنقرہ کو ایک دوسرے سے تعاون کر کے اور مشترکہ دشمن کی حیثیت سے دہشت گردی سے مقابلے پر توجہ مرکوز کر کے خطے میں امن و استحکام کی بنیادوں کو مضبوط بنانا چاہیے
ترکی کے وزیر اعظم کے دورۂ تہران کا معاشی، سیاسی اور علاقائي تناظر میں تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت معاشی شعبے میں ترکی کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں اور شام کے بحران کے سلسلے میں عنقرہ کی ناقابل جواز پالیسیوں کے سبب اس کے سیاسی اور علاقائي سطح پر الگ تھلگ پڑ جانے اور اسی طرح ماسکو سے اس کے اختلافات کے سبب ترکی کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب اس ملک میں حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی بدامنی نے ترکی میں سیاحوں کی آمد میں کافی کمی کر دی ہے جس سے اس کی سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ترکی کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی صعنت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کے دورۂ ایران میں گفتگو کا ایک اہم موضوع باہمی تجارتی لین دین کی شرح کو تیس ارب ڈالر تک پہنچانا ہے جس پر دونوں ملکوں کے صدر پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں۔دریں اثنا سیاسی شعبے میں بحران شام اور عراق میں ترک افواج کی موجودگي کے مسئلے پر ایران اور ترکی کے درمیان اختلاف بہت واضح ہے۔ ترکی، گزشتہ پانچ سال سے سعودی عرب اور قطر کے ساتھ مل کر شام میں انتہائي تخریبی کردار ادا کر رہا ہے۔ اب شام میں جنگ بندی کے قیام کے سبب ایسا لگتا ہے کہ ترکی اپنے اس رویے کو سدھارنا چاہتا ہے اور عنقرہ اور دمشق کے تعلقات میں نظر ثانی کے سلسلے میں تہران اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ماسکو کے ساتھ عنقرہ کی کشیدگی کو کم کرنے میں بھی تہران کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب باتوں کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ترکی موجودہ حالات میں اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کا خواہاں ہے اور اس ملک کے وزیر اعظم احمد داوود اوغلو نے ایران کا دورہ کر کے ان کوششوں کا آغاز کر دیا ہےترکی کے وزیر اعظم احمد داوود اوغلو کے دورۂ ایران اور اس کے اہداف کا دو اہم باتوں کو پیش نظر رکھ کر تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ ایک، علاقائي تغیرات میں ایران کی طرح ہی ایک مرکزی طاقت کی حیثیت سے ترکی کی پوزیشن اور دوسرے ترکی کی اسٹریٹیجک ثقافت۔ عام طور پر علاقائي مطالعات کے نظریوں میں ایران اور ترکی جیسی حکومتوں کو مرکزی طاقت کا نام دیا جاتا ہے جو کئي چھوٹی موٹی حکومتوں کی ہمسایہ ہوتی ہیں اور ایک ہی وقت میں ان حکومتوں کی علاقائی سیکورٹی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بنابریں، خطے کی سطح پر ایران اور ترکی کے درمیان تعاون اور رقابت دونوں کے لیے ایک آئیڈیل مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ آئيڈیل عراق اور شام میں جاری تغیرات اور کردوں کے مسئلے میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے لیکن تاریخی حقائق کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئي بھی طاقت اپنے تعلقات کو علاقائی سطح پر ٹکراؤ کے مرحلے تک نہیں پہنچانا چاہتیں۔ احمد داوود اوغلو کا حالیہ دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات علاقائي سطح پر کشیدگی سے، تعاون اور رقابت کی طرح مائل ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ترکی کو علاقائي سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے میدان میں سیکورٹی کے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان معاملوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی راہ تقریبا ہموار ہی ہے۔ دوسرا مسئلہ، اسٹریٹیجک ثقافت کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ ترکی کی اسٹریٹیجک ثقافت، نظریاتی سے زیادہ، منفعت پسندی، اعتدال پسندی اور لین دین پر مبنی ہے۔ یہ ثقافت، طویل مدت میں اعتدال پسندی کی جانب مائل ہے۔ اس لیے بھی اس بات کی توقع نہیں ہے کہ ترکی، ایران جیسے اپنے طاقتور ہمسایہ ملک سے تعلقات خراب کرنا چاہے گا۔ بہرحال مجموعی طور پر ایسا نظر آتا ہے کہ علاقائي مسائل کے بارے میں ایران اور ترکی کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ بڑی امید افزا بات ہے
م