الوقت- سعودی عرب کے شمالی علاقے میں خطے کی اہم ترین اور سب سے بڑی فوجی مشقیں ہورہی ہیں، پاکستان سمیت 20ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں شام کے تنازعہ پر جس طرح سعودی عرب آگئے بڑھ رہا ہے اس سے خطرہ ہے کہ اس خطے میں بڑی طاقتوں کا عمل دخل بھی بڑھ جائیگا جسکے نتیجے میں بقول اسرائیلی وزیر شام کو 3ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔ اس وقت شام میں ایران اور روس کی حمایت یافتہ حکومت کیخلاف سعودی عرب اور ترکی کھل کر فوجی اتحاد بنا چکے ہیں۔ سعودی طیارے ترکی میں شام کے حکومتی ٹھکانوں پر حملے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ روس اور ایران نے اسکے جواب میں جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔ ان حالات میں پاکستان سمیت 20مسلم ممالک کی افواج سعودی عرب ،میں اپنی بری فضائی اور بحری طاقت کا مظاہرہ تھنڈر آف نارتھ نامی خطے کی سب سے بڑی فوجی مشقوں میں کررہی ہیں جس کا بظاہرمقصد سعودی عرب پر حملے کی صورت میں یا اسکی حمایت میں کہیں بھی حملے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔ ظاہر ہے ان مشقوں کا مطلب ایران پر دبائو ڈالنا مقصود ہے جو کھل کر شامی حکومت کی فوجی مدد کر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے شروع میں سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرتے ہوئے پاکستان سے فوجی دستے طلب کئے تھے۔ فوج کے واضح موقف اور قومی اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں حکومت کو اس قسم کا تعاون فراہم کرنے سے انکار کرنا پڑا تھا جس پر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اسی طرح سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے چند ماہ قبل 35 ملکوں کا فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان سے مشورہ کئے بغیر اس میں پاکستان کا نام شامل کرلیا گیا۔ حکومت اب تک اس اتحاد کے بارے میں واضح موقف اختیار نہیں کرسکی۔ اسی طرح گزشتہ ماہ سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا تو پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر دونوں ملکوں میں صلح کروانے کے لئے ریاض اور تہران کا دورہ کیا۔ لیکن سعودی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بلکہ سعودی وزیر خارجہ نے ایسی ہر کوشش کی ضرورت کو مسترد کردیا تھا۔ یہ کہنا یا تصور کرنا غلط ہوگا کہ سعودی عرب پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے۔ چند روز قبل تہران میں سعودی مفادات کے تحفظ کے لئے سوٹزرلینڈ کا انتخاب کیا گیا ہے حالانکہ پاکستان بھی یہ خدمات پیش کرچکا تھا۔
ترکی اور سعودی عرب کے حملوں کی دھمکیاں اوراسکے ساتھ حالیہ فوجی مشقیں خطے کو ایک نئے بحران سے دوچار کرسکتی ہیں لہزا ان فوجی مشقوں میں شریک ممالک خاص کر پاکستان کو نہایت سوچ سمجھ کر اپنی پالیسی مرتب کرنا ہوگی
پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں مسلم برادر ممالک کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو نہایت محتاط روی کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ایران کیساتھ اسکے تعلقات میں کوئی بگاڑ نہ آئے کیونکہ اسکا اثر مسلکی بنیادوں پر پاکستان پر بھی پڑ سکتا ہے۔ سب سے بہتر راہ یہ ہے کہ پاکستان ہرممکن سطح پراسلامی ممالک کی تنظیم اور عالمی برادری کیساتھ مل کر ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے خاتمہ کیلئے کوشش کرے تاکہ ایران و سعودی عرب کے درمیان براہ راست تصادم کی راہ روکی جا سکے۔ امریکہ روس، برطانیہ اور فرانس اقوام متحدہ کے توسط سے مسئلہ شام پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں تو یہ تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔ فی الحال پاکستان کو سوچ سمجھ کر نہایت احتیاط سے اپنا دامن بھی جنگ کے شعلوں سے بچانا ہو گا۔