الوقت- حزب اللہ لبنان کے انٹلیجنس نابغہ نے اپنی ساری زںدگي دشمنوں کی جاسوس ایجنسیوں کو الجھائے رکھنے میں گذار دی دشمنوں کی جاسوس ایجنسیاں ان کا تعاقب کرتی رہیں لیکن وہ اپنی بے پناہ مہارت اور چالاکی سے دشمنوں کو دھول چٹواتے رہے۔ آخر کار دس برسوں قبل اور تیس برسوں بعد دشمنوں نے انہیں ایک بم دھماکے میں شہید کردیا۔ اس عظیم مرد مجاہد کا نام شہید عماد فایض مغنیہ تھا۔ عماد مغنیہ جیسا فولادی ارادے کا انسان ہی دنیا کی بدنام ترین جاسوس تنظیموں کے چنگل سے نکل سکتا ہے اور انہیں حیران و پریشان ہاتھ ملتا ہوا چھوڑسکتا ہے۔ وہ لبنان اور دمشق کی سڑکوں پر بغیر کسی سیکورٹی کے بے دھڑک آیا جایا کرتے تھے۔
شہید عماد فایض مغنیہ لبنان کے ایک غریب شیعہ گھرانے میں انیس سو انسٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ لبنان کے شہر صور کا گاؤں طیردبا ان کی جائے پیدائش ہے۔ وہ آگے چل کر امریکہ اور صیہونی حکومت کی بدنام زمانہ جاسوس تنظیموں کے سب سے بڑے دشمن کہلائے۔
اگر چہ خود امریکہ اور صیہونی پروپگینڈوں کی بدولت یہ تصور عام تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا کا سب سے خطرناک ترین شخص ہے لیکن امریکہ اور صیہونی حکومت کی جاسوس تنظیموں کی نظر میں اسامہ بن لادن ایک کچا کھلاڑی تھا بلکہ بچہ تھا۔ دراصل مغربی جاسوس تنظیمیں عماد مغنیہ کے نام سے ڈرتی تھیں۔ اگرچہ وہ منظر عام پر نہیں آتے تھے لیکن ہمیشہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی جاسوس تنظیموں کو اندھا بناکر ان کے سامنے سے نکل جاتے تھے۔ اسی سلسلے میں سی آئي اے کے ایک اعلی افسرملٹن برڈن جنہيں تیس برسوں کا انٹلیجنس کا تجربہ ہے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن بے حد پروپگينڈے اور کھوکھلے دعووں کے باوجود روپوش ہوجاتا تھا لیکن مغنیہ ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے تھے۔
کہا جاتا ہے شہید عماد مغنیہ انٹلیجنس مسائل میں ذاتی صلاحیتوں کے مالک تھے، وہ کبھی بھی کیمرے کے سامنے نہیں آئے اور عام طور سے اکیلے آتے جاتے تھے، وہ جس دروازے سے داخل ہوتے تھے اس سے خارج نہيں ہوتے تھے۔
شہید عماد مغنیہ کا نام اس وقت زبان زد عام و خاص ہوا جب سے ان کی طرف دنیا کے سب سے بڑے غیر ایٹمی دھماکے کی نسبت دی جانے لگي۔ اپریل انیس سو تراسی میں بیروت میں چار سو کیلو گرام سے لدی ایک وین میں دھماکہ ہوا تھا جس سے امریکی سفارتخانہ لرز اٹھا تھا اورمشرق وسطی کے امور کے ماہر سفارتکار رابرٹ ایمز سمیت انہتر افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے میں اور اکتوبر میں ایک ساتھ ہونے والے دوحملوں میں امریکی میریںز اور فرانسیسی پیرا شوٹرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں میں مجموعی طور سے دو سو اکتالیس امریکی فوجی اور اٹھاون فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اکتوبر کے یہ حملے ماہرین کے حلقوں میں سب سے کامیاب گوریلا حملے قرار دئے گئےتھے جن کی وجہ سے امریکہ لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوا تھا۔ اسی زمانے سے امریکہ اور صیہونی حکومت کی جاسوس سروسز نے عماد مغنیہ کو شہید کرنے کا پلان بنالیا تھا لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام ہوتی تھیں۔ چونکہ عماد مغنیہ کی کوئي خبر یا تصویر نشر نہیں ہوتی تھی لھذا یہ سوچا جانے لگا کہ عماد مغنیہ نام کا کوئي شخص ہے ہی نہیں یہانتک کہ خود حزب اللہ کے حامیوں کو بھی یاد نہیں رہا کہ کوئي عماد مغنیہ نام کا کمانڈرحزب اللہ میں شامل تھا۔ دوہزار چھے میں تینتیس روزہ جنگ کے بعد اور حزب اللہ کی حقیقی طاقت کے سامنے آنے کے بعد عماد مغنیہ کو تلاش کرنے کے لئے نہایت وسیع آپریشن شروع کئےگئے۔ ادھر لبنان کے اخبار السفیر نے خبر دی کہ تینتیس روزہ جنگ کے بعد حزب اللہ نے اپنی فوجی توانائيوں کی جدید کاری اور تنظیم نو شروع کردی ہے تا کہ وہ کسی دوسری جارحیت کا بھی مقابلہ کرسکے۔ حزب اللہ لبنان کی توانائيوں کو توسیع دینے کی ذمہ داری شہید عماد مغنیہ کے کندھوں پر پڑگئی۔ اس کےعلاوہ عماد مغنیہ کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ وہ تینتیس روزہ جنگ سے حاصل ہونے والے تجربوں اور اپنے تجربوں کی اساس پر حزب اللہ کو مضبوط بنائيں گے۔ یہ فیصلہ تہران، دمشق اور بیروت میں لیا گيا تھا۔ عماد مغنیہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ایک لاجسٹیک انفرا اسٹرکچر بنانا چاہتے تھے جس سے انہیں مدد مل سکے وہ خاص طور سے غزہ کو اپنے پلان میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کےلئے انہیں بار بار دمشق آنا پڑتا تھا کیونکہ یہ ان کا اہم ترین مرکز تھا۔ اسی آمد و رفت کی وجہ سے دشمن کی آںکھوں نے انہیں دیکھ ہی لیا اور سرانجام بارہ فروری کی رات کو جب وہ دمشق کے علاقے کفر سوسوا سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھنا چاہ رہے تھے ایک زبر دست بم دھماکہ ہوا جس میں حزب اللہ کا یہ عدیم المثال کمانڈر شہید ہوگيا۔ ان کی شہادت کے بعد ہی ان کی پیشہ ورانہ زندگي کے بعض پہلو سامنے آسکے اور انہیں انٹلجنس کا نابغہ قراردیا گیا۔ یہ لقب ان کے شایان شان ہے کیونکہ دشمن نے ان کی موت میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہے لیکن دشمنوں کو نہیں معلوم راہ خدا میں جان دینے والے ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں اور دنیا انہیں اچھائي سے یاد کرتی ہے۔