ایران اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی آنکہیں نہیں چرا سکتا۔امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ہمیشہ ایران کے اسلامی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اسی تناظر میں امریکہ کی سابق نائـب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق وینڈی شرمین نے گزشتہ بدھ کو ویلسن تحقیقاتی مرکز میں ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایک نشست سے خطاب میں کہا کہ وہ یہ مانتی ہیں کہ ایران اس سے پہلے بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
وینڈی شرمین نے اس کے باوجود ایران کے ایٹمی معاملے کے تعلق سے صدر اوباما کی پالیسیوں کی حمایت کی اور کہا کہ پابندی محض ایک سبب تھا کہ ایرانی مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ فوجی کارروائیوں سے ایران کی تمام ایٹمی تنصیبات کو تباہ کیاجاسکتا تھا لیکن وہ علم و دانش جس تک ایرانی پہنچ چکے ہیں اسے ان سے واپس نہیں لیا جاسکتا ہے اور وہ دو یا تین برسوں میں اپنی ایٹمی تنصیبات مکمل طرح سے دوبارہ بنالیتے اور اس وقت اس بات کا امکان ہوتا کہ ہم انہیں تباہ نہ کرپاتے۔
وینڈی شرمین کا یہ بیان ایسے عالم میں سامنے آرہا ہے کہ امریکہ سمیت ایرانی قوم کے دیگر دشمنوں نے اپنی تمام تر مسابقت اور اختلافات کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہر طرح کی سازش کی ہے۔ان سازشوں میں ، علاقے کے لئے ایران کے خطرہ ہونے کےبہانے مسلط کردہ جنگ، پابندیاں اور ایرانوفوبیا کے اقدامات شامل ہیں اور یہ اسلامی انقلاب کے خلاف دشمنیوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کو اب یقین ہورہا ہے کہ اقتصادی محاصرے اور خلاف ورزیاں ایران کی پیشرفت میں رکاوٹ نہیں بن سکی ہیں۔ ایران نے سفارتکاری کے میدان میں ایٹمی معاملے میں دشمنوں کی دھمکیوں کو مواقع میں تبدیل کرکے ایٹمی حقوق کو منوالیا اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے جس سے دشمنوں کی پیچیدہ سازشوں کے مقابل ایران کی نرم طاقت کی نشاندھی ہوتی ہے۔
البتہ تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کبھی بھی اپنی ماضی کی خصلتوں سے ہاتھ نہیں کھینچے گا ہرچند کہ بعض موقعوں پر امریکی حکام بعض حقائق کا اعتراف کرنے پر مجبور ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ امریکہ نے انیس سو ترپن میں ایران میں مداخلت کرکے ڈاکٹر مصدق کی قانونی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تھی تا کہ شاہ کی ظالم و جابر حکومت کی حمایت کرسکے۔ امریکی حکام نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ یقین کرلیاتھا کہ انہوں نے ایران کے تعلق سے بڑی غلطیاں کی ہیں اور ان غلطیوں میں ایک ایران میں فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرنا اور عراق کے سابق خونخوار ڈکٹیٹر صدام کو ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے پر اکسانا شامل تھا۔ ایرانی قوم نے امریکہ کی تمام سازشوں جیسے پابندیوں، دباؤ اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر مذاکراتی ٹیم کو ایرانی قوم کی استقامت و پائداری کی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو ایٹمی معاہدہ شاید کسی نتیجے تک نہ پہنچ پاتا۔ اسلامی انقلاب ایسے عالم میں اپنی سینتیسویں سالگرہ کا جشن منارہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بڑے استحکام اور ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اس وقت ایٹمی معاملے کے بہانے ایران پر عائد بعض ظالمانہ پابندیاں ہٹادی گئی ہیں لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ امریکہ کب تک اور کہاں تک اپنی غیر منطقی پالیسیوں کو جاری رکھے گا۔ امریکہ، ایران کی میزائیلی طاقت اور دہشتگردی کی حمایت جیسے بے بنیاد بہانوں سے ایرانوفوبیا کو ہوا دے رہا ہے اور بدستور اپنی ماضی کی مخاصمانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کررہا ہے۔امریکیوں کی یہ خصلت وینڈی شرمین کے بیانات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرنے کےباوجود کہ وہ اس بات سے آگاہ تھیں کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کے درپے نہیں رہا ہے امریکہ کے اقدامات کو صحیح قراردیا اور ان کا دفاع کیا ہے۔امریکی حکام اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن جب انہیں ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو ان کی استکباری اور سامراجی رگ پھڑک اٹھتی ہے اور امن اور انسانی حقوق جیسے بہانوں کو سامنے لا کر اپنے مخالفین کی اواز کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔امریکہ انسانی حقوق کوپامال کرنے والا سب سے برا ملک اور دہشتگردی کو فروغ دینےوالی نمایاں حکومت ہے لیکن اس نے اپنے آپ کو کئی پردوں میں چھپایا ہوا ہے۔