سوال =اس اجلاس میں کونسے ممالک شامل ہیں اورانکے کیا اھداف ہیں؟
جواب=اس اتحاد میں امریکہ، آسٹریلیا، بلجیم، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، فرانس،جرمنی، عراق، اٹلی، اردن، کویت، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، ناروے، قطر، سعودی عرب، اسپین، سویڈن، ترکی، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں۔ اس اتحاد میں شامل ملکوں کودیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے اجلاسوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف کوئی موثراور خاطر خواہ اقدامات انجام دے سکیں گے۔ داعش کے خلاف اتحاد میں بعض ممالک تو ایسے ہیں جو اس دہشتگرد گروہ کی مکمل سرپرستی کا کردار ادا کررہے ہیں اور اسکی فوجی اور مالی حمایت کررہے ہیں۔ ان ممالک میں ترکی، سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں اور جنہوں نے شام کی حکومت کو گرانے کی غرض سے اس گروہ کو مضبوط کیا تھا بلکہ عراق میں اپنے اھداف کو آگے بڑھانے کے لئے عراق میں اسکی مدد کی ہے۔ ترکی بھی اس وقت وہابی تکفیری افراد کے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے شام پہنچنے کا کوریڈور بنا ہوا ہے یہاں تک کہ ان دہشتگردوں کے تربیتی کیمپ بھی ترکی میں موجود ہیں۔ ایسے حالات میں کس طرح اس اتحاد سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ داعش کے خلاف اقدامات کرے گا
سوال۔ڈاکٹر ظفر بنگش آپ اس اجلاس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب=دیکھیں یہ اس موضوع پر امریکی قیادت میں کوئی پہلا اجلاس نہیں۔امریکہ دہشت گردی اور بالخصوص داعش کے مقابلے کے لئے اس سے پہلے بھی ایک اتحاد تشکیل دے چکا ہے اور اس نے شام میں بظاہر کچھ کاروائیاں بھی انجام دی ہیں لیکن یہ بات سب کے سامنے ہے کہ اس سے دہشتگردی اور داعش کو تو کچھ نقصان نہیں پہنچا لیکن شام کا انفرااسٹکچر ضرور تباہ ہوا ہے۔یہ اجلاس بھی اسی نیت کے ساتھ انجام پایا ہے اور اس سے صرف دنیا کو یہ دھوکہ دینا ہے کہ امریکہ اور یورپ داعش اور دہشتگردی کے خلاف سنجیدہ ہیں۔امریکہ اور اسکے حواری اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔
سوال۔ اس اجلاس سے یہ ممالک اپنے عوام کو کسطرح دھوکہ دے رہے ہیں اسکی تھوڑی وضاحت کردیں؟
جواب=دیکھیں امریکہ اور اسکے حواریوں نے شام میں جو دہشتگردی شروع کی ہے اسکی آگ فرانس سمیت کئی یورپی ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔امریکی اور یورپی عوام میں اس وقت شدید خوف اور تشویش پائی جاتی ہے وہ دہشتگردی کے خلاف سنجیدہ اقدامات کے خوہشمند ہیں امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی اس بات کے لئیے کوشاں ہے کہ اپنے عوام کو یہ بتا سکیں کہ ہم داعش اور دہشتگردی کے لئے عالمی سطح پر کوششیں کررہے ہیں ۔یہ اپنے عوام کو یہ تو نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ آگ ہم نے لگائی ہے اور ہم ہی ہیں جنہوں نے داعش اور القاعدہ کو تشکیل دیا ہے۔
سوال= کیا امریکہ اور اسکے اتحادیوں میں داعش کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں یا وہ اس کے خاتمے کو اپنی پالیسی کے خلاف سمجھتے ہیں؟
جواب= مشرق وسطی کے مسائل سے آگاہ افراد کا خیال ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنا جیسا کہ امریکہ اور یورپ ظاہر کرتے ہیں بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے بس اتنا ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپ سعودی عرب اور ترکی پر یہ دباؤ ڈالیں کہ وہ داعش کی مالی اور فوجی مدد بند کردیں اور شام کے لئے وہابی تکفیریوں کا راستہ بند کردیں تاکہ وہ داعش کی صفوف میں شامل نہ ہوسکیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ امریکہ اور یورپی ممالک اس ارادے کے قطعی حامل نہیں ہیں اور ایسی کوئی علامت بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شام میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے مارے جانے اور لاکھوں افراد کے آوارہ وطن ہونے کے بعد بھی وہ داعش کی حمایت سے دستبردار ہونا چاہتے ہوں۔
سوال۔روم اجلاس اس وقت کیوں منعقد کیا گیا؟
جواب=روم جیسے اجلاس یورپ میں پناہ گزینوں کی آمد کی لہر کے جاری رہنے اور دہشتگردی کے خطرات پر رد عمل ہے، یورپی حکومتیں بخوبی جانتی ہیں کہ پناہ گزینوں کے ریلے کو روکنے اور سیکورٹی بحرانوں کے حل کے لئے تدابیر اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب جب مشرق وسطی کے بحران حل کئے جائیں اور دہشتگرد گروہوں اور انکی مالی حمایت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ لیکن یورپی یونین میں بھی بنیادی طور سے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یورپی ممالک بھی دہشتگردی اور انتہا پسندی کے تعلق سے دوہرے معیارات رکھتے ہیں اور انہیں ہتھکنڈے کے طور پر دیکھتے ہیں۔جب تک یورپی ممالک اور امریکہ کی خارجہ پالیسی پر دہشتگردی کے تعلق سے یہ نظریہ حکمفرما رہے گا ان سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے مقابلے کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی اور جو بھی نشست اس سلسلے میں منعقد ہوگی اس کے اھداف دہشتگردی اور انتہا پسند کے مقابلے کے علاوہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں