سوال= سعودی فرمانروا ملک سلمان کی پالیسیوں کے بارے میں آپکا کیا تجزیہ ہے۔
جواب=شاہ عبداللہ کے مرنے کے بعد سعودی عرب کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں۔ملکی کے علارہ خطے کے حوالے سے بھی ان تبدیلیوں کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ایران کے حوالے سے بھی نمایاں تبدیلیوں کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان کچھ ریڈ لائن تھیں جو توڑ دی گئیں ہیں۔یمن میں عوام مخالف گروپ کا ساتھ دیکر اس ملک پر ایک جنگ مسلط کردی گئی ہے۔خطے میں دہشت گردی کی کھلم کھلا حمایت بھی سعودی پالیسی کا حصہ بن کئی ہے جس سے خطے میں دہشتگردی کو فروغ ملا ہے۔ملک عبداللہ کے دور میں اخوان،وہابیت اورسعودی حکام میں ایک رقابت کی صورت حال تھی لیکن اب ان تینوں میں ہم اہنگی اور یکجہتی پیدا ہوگئی ہے۔اس سےبڑھ کر اسرائیل سے سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔عرب امارات میں اسرائیل کے تجارتی دفاتر کا افتتاح اور اربیل میں یہودیوں کی حمایت میں انجمن کی تشکیل لیکن اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب یہ سب کچھ امریکہ کے اسارے پر کررہا ہے استقامت کے خلاف بلاک کو مضبوط کرنا امریکہ اور اسرائیل کے ایما پر ہورہا ہے۔ترکی،اردن اور قطر بھی اسی بلاک میں آچکے ہیں۔امریکہ اور عالمی ادارے یمن کے مسئلے پر مکمل خاموش ہیں بلکہ یمنی عوام کے قتل عام کے لئے امریکہ نے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب کو دئیے ہیں۔
سوال=ان پالیسیوں کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟۔
جواب= سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کی پالیسیوں کی وجہ سے خطے کے تمام ممالک دہشتگردی کی چیلنج سے دوچر ہوگئے ہیں اور ہرکوئی اپنے ملک میں دہشتگردی کے حوالے سے پریشان ہے اور اسرائیل کی طرف اب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔دوسری طرف عراق اور شام جیسے ممالک کو تقسیم کرنے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔دوسری طرف داعش کے زریعے اسلامی خلافت کا شوشہ جو افریقہ سے لیکر خراسان اور جنوبی پورپ کو اپنی لپیٹ میں لینے کا منصوبہ ہے جس کا مطلب ایک بڑی جیو پولیٹیکل تبدیلی۔اسرائیل کا وزیر اعظم عراق کی تقسیم اور خودمختار کردستان کی بات کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ مسلمان ملکوں کو تقسیم کرنے کا خواہشمند ہے۔
سوال= اس سارے کھیل میں کونسے ملک شامل ہیں۔؟
جواب۔اس خرب صورت حال نے ایران کو دہشتگردی کے خلاف مصروف کردیا ہے اور ایران دہشتگردی پر قابو پانے میں لگ جائے گا۔داعش کےنام سے دہشتگردی کو لیبیا میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کئی شہروں پر انکے قبضے ہیں۔افغانستان اور پاکستان میں ان کا نفوز بڑھ رہا ہے دوسری طرف امریکہ دہشتگردی اور داعش پر قابو پانے کے بہانے مختلف ملکوں میں اپنی موجودگی کا جواز اور بہانہ بنا رہی ہے۔اس صورت حال میں ایران دہشت گردی کے خلاف مقابلے میں سب سے آگے ہے اگرچہ اب روس بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل،امریکہ اور علاقے کے بعض عرب ممالک پر مشتمل ایک مثلث ہے جو اس کھیل کے پیچھے ہے اوروہ داعش کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔داعش کو بنانے والے یہی ممالک ہیں جبکہ دوسری طرف اس امکان سے بچنے کے لئے کہ ایران دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قیادت نہ کرے داعش کے خلاف اتحاد بھی تشکیل دے رہے ہیں اور اس میں ترکی کو بھی شامل کیا جارہا ہے اور اگر ترکی اس عمل میں شامل ہوگیا تو اسکو داعش کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑےگا اوراسے اس کی بھاری قیمت اداکرنا پڑے گی۔اس وقت خطے کی کشیدہ صورت حال امریکہ کے فائدے مین ہے اور وہ اھداف جو انہوں نے 2003 میں طے کئے تھے صورت حال اسکے مطابق جارہی ہے یعنی اسرائیل کی سیکوریٹی کو اس وقت کوئی خطرہ نہیں۔اسلامی ممالک داعش کی وجہ سےاپنی اپنی سیکوریٹی کی فکر میں پڑھ گئے ہیں اورغاصب صیہونی حکومت مزے سے اس تمام صورت حال کو انجوائے کررہی ہے۔
(جاری ہے)