الوقت- پاکستان کے خبری زرائع نے شمال مغربی پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک یونیورسٹی پر دہشت گردانہ حملے کی خبر دی ہے-
خیبرپختونخواہ کے ایک صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کے مطابق پشاور کے قریب واقع باچاخان یونیورسٹی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں اب تک کم سے کم بیس افراد کے ہلاک اور ساٹھ سے زیادہ کے زخمی ہونے کی خبر ہے - رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر چھ دھماکے ہوئے ہیں-
باچاخان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے بقول دہشت گردانہ حملے کے وقت اس یونیورسٹی میں ایک ادبی پروگرام (مشاعرہ) ہو رہا تھا جس میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور تقریبا تین ہزار مہمان موجود تھے -
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس دہشت گردانہ اقدام کی مناسبت سے ایک بیان جاری کر کے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے اور متعلقہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ اس حملے کے تمام ذمہ داروں کو قتل کر دیں- اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے-
گذشتہ سال دسمبر میں بھی طالبان نے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں آرمی اسکول پر حملہ کیا تھا جو تقریبا ایک سو پچاس افراد کے جاں بحق ہونے پر منتج ہوا تھا مرنے والوں میں طلبہ اور عملے کے افراد شامل تھے-
اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیمی مراکز پر طالبان کے جاری حملے، پاکستان خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں بدامنی پیدا کرنے کے لئے ان کی ٹیکٹیک میں ایک قسم کی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے-
پشاور میں آرمی اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد اسلام آباد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قومی ایکشن پلان کے تحت ایک وسیع منصوبہ تیار کیا اور اسے اپنے ایجنڈے میں رکھا اور سزائے موت پر ممانعت کو منسوخ کرتے ہوئے موت کے سزایافتہ دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا دی- اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے زیر عنوان آپریشن مزید سختی سے جاری رکھا جو پاکستانی فوج کے کمانڈروں کے مطابق کامیاب رہا ہے- درایں اثنا پاکستان کے سیکورٹی ادارے کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ٹارگیٹیڈ کارروائیاں بھی کر رہے ہیں- ان حالات میں صوبہ خیبرپختونخواہ کی باچاخان یونیورسٹی پر طالبان کا حملہ ، پاکستانی فوج اور سیکورٹی اداروں کے مقابلے میں ایک طرح سے طاقت کے مظاہرے سے تعبیر کیا جا رہا ہے-
پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ یونیورسٹی کے ایک ایسے علاقے میں جہاں سخت سیکورٹی انتظامات ہوں دھماکا خیز مواد پہنچنے کے امکان سے، یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں سمیت حساس اور اہم مقامات اور مراکز کی سیکورٹی کی فراہمی میں اس ملک کی فوج اور سیکورٹی اداروں کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں-
کیونکہ خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کو تعلیمی مراکز پر دہشت گردانہ حملے کا کم سے کم ایک تجربہ ضرور تھا کہ جس میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا- ان حالات میں یونیورسٹی کی ایک ایسی تقریب کی سیکورٹی میں ناکامی کہ جس میں ہزاروں افراد کو بلایاگیا تھا، عوام اور مرنے والوں کے اہل خاندان کے لئے قابل قبول نہیں ہے-
بعض سیاسی ماہرین صوبہ خیبرپختونخواہ کی باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردانہ حملے کو نوازشریف کے غیرملکی دورے سے بھی جوڑ رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ میاں نوازشریف نے آرمی چیف راحیل شریف کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے حالیہ دورے میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے