الوقت- امریکی کانگرس کے نمائندوں نے ایران کے سینٹرل بینک کے اکاؤنٹ سے ایک ارب ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی رقم نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی قانون سازوں نے گذشتہ بدھ کے روز ایک بل پر دستخط کر کے امریکہ کی فیڈرل کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے سینٹرل بینک کے منجمد اثاثوں میں سے ایک ارب ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی رقم نکالنے کا حکم دے۔
یہ امریکی قانون ساز ایرانی سینٹرل بینک کے اکاؤنٹ سے مذکورہ رقم نکالنے کے لیے اقدامات اس لیے کر رہے ہیں کہ بقول ان کے یہ رقم ان لوگوں کو تاوان کے طور پر ادا کی جائے جو ایران کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
امریکہ کے ایوان نمائندگان میں قانونی مشاورت کے گروپ نے کہ جس میں اس ایوان کے اسپیکر اور اکثریتی اور اقلیتی پارٹی کے رہنما شامل ہیں، ایک بل پیش کیا ہے جس پر کانگرس کے دو سو چھبیس ارکان نے کہ جن کا تعلق ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں سے ہے، دستخط کیے ہیں۔
ان نمائندوں نے اس بل پر دستخط کر کے امریکہ کی فیڈرل کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے سینٹرل بینک کی ایک ارب ڈالر ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی رقم واپس لینے کی درخواست مسترد کر دے اور یہ رقم انیس سو تراسی کے بیروت بم دھماکوں اور انیس سو چھیانوے میں سعودی عرب کے الخبر بم دھماکوں میں مرنے والوں کے اہل خانہ کو تاوان کے طور پر ادا کرنے کا حکم دے۔
ایران نے کئی بار انیس سو تراسی میں بیروت میں امریکی بحریہ کے اڈے میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ان بم دھماکوں میں دو سو اکتالیس امریکی فوجی مارے گئے
ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابری انصاری نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کی عائد کردہ نئی پابندیاں خلاف قانون ہیں،یہ بات انہوں نے اپنے ملک کے خلاف امریکہ کی انتقامی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے۔ ان کا کہنا تھا
"اس طرح کے اقدام یک طرفہ، بے بنیاد اور غیر قانونی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی حکومت اس بارے میں امریکہ کو پہلے ہی متنبہ کر چکی ہے ۔
ایران کی وزارت خارجہ کا یہ بیان امریکہ کے اس بیان کے جواب میں ہے کہ اس نے ایران کے خلاف مالیاتی حد بندیوں کا نیا پیکج تیار کیا ہے۔ ایسا جولائی میں ایران کی چھ مصالحین کے ساتھ طے ہونے والے سبھی کے لیے قابل قبول سمجھوتے کے بعد پہلی بار کیا گیا ہے۔
ادھراسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکہ کی غیرقانونی مداخلتوں اور ایران دشمن پالیسیوں کے جواب میں وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان کو حکم دیا ہے کہ منظور شدہ دفاعی پالیسوں کے دائرے میں مسلح افواج کی ضرورت کے مطابق انواع و اقسام کے میزائلوں کی تیار ی میں مزید تیزی لائی جائے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع کے نام صدر روحانی کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مداخلت پسندانہ اور غلط قدم اٹھائے جانے کی صورت میں وزارت دفاع اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی میزائلی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے نئی منصوبہ بندی کرے -
وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے اس حکم نامے کے جواب میں کہا ہے کہ ایران کی وزارت دفاع ہر خطرے کے مقابلے کے لئے انواع و اقسام کے میزائل اور فوجی سازوسامان تیار کرے گی۔ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے میزائلوں کا مسئلہ کبھی بھی امریکی فریق کے ساتھ مذاکرات کا موضوع نہیں رہا اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دفاعی بیلیسٹک میزائلوں کی ڈیزائننگ اور تیاری کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بھی امریکہ کے دھمکی آمیز اقدامات کے خلاف میزائلی صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ دیئے جانے کی ضرورت کے بارے میں وزیر دفاع حسین دہقان کے نام صدر مملکت حسن روحانی کے خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی مذاکرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان، ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنانہ پالیسیوں کے خاتمے کے مترادف نہیں ہے۔ عباس عراقچی نے کہا کہ جو افراد یہ خیال کر رہے ہیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سبب امریکہ کی دشمنانہ پالیساں ختم ہو جائیں گی یا ان میں کمی آ جائے گی، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ امریکہ میں صیہونی اور علاقائی لابیوں کا ان پالیسیوں میں بہت زیادہ عمل دخل ہے اور ایران ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ امریکہ میں اس کے خلاف منصوبے بنائے جائیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائل پروگرام کے جاری رہنے پر مبنی صدر مملکت کی جانب سے حکم نامہ جاری ہونے کے ساتھ ہی امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے بیلیسٹک میزائل پروگرام کے مسئلے پر ایران کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں عائد کئے جانے کو التواء میں ڈال دیا ہے- اس اخبار نے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے کانگریس کو بھیجے گئے خط کی بنیاد پر واشنگٹن میں ان پابندیوں کا اعلان بدھ کے روز ہونا طے پایا تھا تاہم اب اس کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی صلاحیتیں، علاقے میں امن و استحکام کا باعث ہیں۔ یہ نہ صرف دوسرے ملکوں کے لیے خطرہ نہیں ہیں بلکہ صرف اپنی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کے تحفظ نیز دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مقابلے اور علاقائی و عالمی مشترکہ مفادات کے لئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی مذاکرات کے دوران ہمیشہ یہی کہا ہے کہ اس نے ملک کی دفاعی طاقت منجملہ میزائل پروگرام کے حوالے سے کسی سے بھی مذاکرات نہیں کئے ہیں اور اپنے اس قانونی حق کے دفاع پر تاکید کرتے ہوئے اس سلسلے میں کسی بھی محدودیت اور پابندی کو قبول نہیں کرتا ہے۔
واضح ہے کہ ایران کا میزائل پروگرام مشترکہ جامع ایکش پلان کا حصہ نہیں ہے جس کا امریکی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے۔ جیسا کہ بارہا اعلان کیا جا چکا ہے، ایران کی دفاعی حکمت عملی اور پالیسی میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اسی لئے بیلیسٹک میزائل، کہ جو ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت کے حامل بھی نہیں ہیں، بنانے کا کام ملک کے دفاع کے لئے ایک اہم اور رائج ہتھیار کے طور پر پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گا -
Jan 01, 2015 12:17 UTC