الوقت- کہتے ہیں ایک شخص نے ایک بلی پال رکھی تھی ایک دفعہ اسکی بلی گم ہوگئی تو اس نے اپنی بلی کی تلاش میں پورے علاقے میں افراتفری مچادی ۔اس شخص کو جہاں بھی جانا ہوتا یا اس گھر یا جگہ کی تلاشی یا وہان سے کوئی چیز چرانی ہوتی تو یہ کہہ کر اس جگہ پر ہلہ بول دیتا کہ میری بلی یہاں پر آئی ہے۔امریکہ اور داعش کی بھی اس مالک اور بلی کی مثال ہے۔ مغرب کی پیشکش داعش نے اپنے وجود کا احساس ہرعلاقے میں بھرپور طریقے سے دلانا شروع کردیا ہے۔اسے جس مقصد کے لئے خلق کیا گیا ہے اب اس نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے داعش کے وجود کی بدولت جہاں مشرق وسطی میں تبدیلیاں آئیں اب افغانستان اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔داعش جسطرح مشرق وسطی میں نئے اتحادوں کا باعث بنی اب اسکی وجہ سے افغانستان میں بھی نئے اتحاد سامنے آرہے ہیں۔حال ہی میں روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ، طالبان کے خلاف پابندیوں میں نرمی کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے۔
افغانستان کے امور میں روسی صدر کے خصوصی ایلچی زامی کابولوف نے کہا ہے کہ افغان عوام کے قومی مفادات کے منافی نہ ہونے کی صورت میں ان کا ملک، افغانستان میں طالبان کے خلاف پابندیوں میں نرمی کی حمایت کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف ممکنہ طور پر پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے ماسکو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لچک کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ماسکو، افغانستان میں قومی آشتی کے حصول سے متعلق حکومت افغانستان کی پالیسی کی حمایت کرتا ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران روس نے افغانستان کے مسئلے میں اور زیادہ اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی حوالے سے وہ، اس کوشش میں ہے کہ ماسکو کے ساتھ تعاون کے لئے طالبان گروہ کی توجہ مبذول کرائے۔ اگرچہ بعض روسی حکام نے طالبان گروہ کے ساتھ اپنے ملک کا رابطہ ہونے کی بات کہی ہے، تاہم طالبان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ حکومت افغانستان کے ساتھ طالبان گروہ کی جنگ کا دائرہ، شمالی افغانستان تک پھیلنے کے ساتھ ہی، جہاں سے اس ملک کی سرحدیں وسطی ایشیاء اور قفقاز سے ملتی ہیں، روس کو ان علاقوں میں تشدد و دہشت گردی کے سرایت کرجانے کے بارے میں تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ اس رو سے روس کی حکومت نے افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ کا مقابلہ اور دہشت گردوں کے مقابلے میں اس ملک کی حکومت کی تقویت کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
اس بات کے پیش نظر کہ طالبان گروہ کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاکرات شروع ہونے والے ہیں، جنھیں بعض مبصرین اس ملک کی آئندہ تبدیلیوں میں موثر سمجھتے ہیں، روس کی حکومت بھی افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسکو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں طالبان گروہ کے خلاف پابندیوں میں ممکنہ نرمی سے متعلق اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں اس گروہ کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں قیام امن کے حوالے سے خود کو سرگرم دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روس کا ایک مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان گروہ کی حمایت اور اس گروہ کو مضبوط کرکے، اسے داعش دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں لا کھڑا کردے۔ داعش دہشت گرد گروہ کے سلسلے میں طالبان گروہ کے منفی موقف اور اس گروہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اس ملک کے عوام سے کی جانے والی اپیل کے پیش نظر، روس بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو مضبوط کرکے اسے داعش دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں لا کھڑا کیا جاسکتا ہے اور کابولوف کا گذشتہ ہفتے کا یہ بیان، کہ منظور نظر مقصد کے تحت افغانستان میں روس کے مفادات، اس ملک میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ میں طالبان گروہ کے مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں، قابل غور ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماسکو نے اعلان کیا ہے کہ وہ، طالبان کے خلاف ان پابندیوں میں ممکنہ نرمی سے متعلق اپنی لچک کا مظاہرہ کرنے کے لئے آمادہ ہے جو طالبان کے بارے میں قرارداد نمبر انّیس اٹھّاسی کے مطابق عائد کی گئی ہیں۔ کابولوف کے مطابق آج فوجی طریقے سے طالبان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کی کوئی بات نہیں کرتا جبکہ بڑی طاقتوں کو چاہئے کہ داعش دہشت گرد گروہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے، جو مغرب کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے، طالبان کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ قرارداد انّیس اٹھّاسی میں، جو دو ہزار گیارہ میں منظور کی گئی تھی، طالبان کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس گروہ کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں اس کے اثاثے منجمد، طالبان کے سرکردہ افراد کے سفر پر پابندی اور مختلف دیگر پابندیاں بھی شامل ہیں۔
چنانچہ روس یہ توقع رکھتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں طالبان کے خلاف پابندیوں میں نرمی کے ذریعے اس گروہ کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کی ترغیب دلانے کے علاوہ، روس کی پالیسیوں کے سلسلے میں اس گروہ میں اعتماد بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ روس شام کے بعد افغانستان میں بھی داعش کے خطرے کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے اب دیکھنا ہے کہ امریکہ بہادر کا اس پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے؟