الوقت-نائجیریا میں حالیہ دنوں میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں تقریبا پانچ سو افراد شہید ہوئے ہیں۔ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نائجیریا کے شیعہ مسلمان طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور یہی امر نائجیرین فوج کے خوف و ہراس کا باعث بنا ہے اور فوج ان کی دشمن بن گئي ہے۔ حقیقت کیا ہے نائجیریا کی پانچ فیصد آبادی سے حکومت کو کیا خطرے ہوسکتے ہیں؟ نائجیریا کے کی شیعہ آبادی براعظم افریقہ میں سب سے بڑی شیعہ آبادی ہے۔ دوہزار آٹھ میں بتایا جارہا تھا کہ نائجیریا کے شیعہ مسلمانوں کی آبادی ستر لاکھ ہے۔ تحریک اسلامی نائجیرین شیعوں کی تنظیم ہے جس کے رہبر شیخ ابراہیم زکزاکی ہیں۔ وہ تیس برسوں سے اسلامی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔شیخ ابراہیم زکزاکی انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی کے والہ و شیدا ہوگئے اور کئي برسوں بعد ایران آئے اور جب ا نہوں نے عالم دین کا رتبہ حاصل کیا تو اپنے وطن واپس جاکر تشیع کی تبلیغ کرنے لگئے اور لوگوں کو حقیقی اسلام محمدی سے آشنا کرنے کے لئے خود کو وقف کردیا۔
نائجیریا کے شیعہ مسلمان لیگوس، زاریا اور کانو نامی شہروں میں بستے ہیں۔ اور ان کا مرکز شہر زاریا میں حسینہ بقیۃ اللہ ہے۔شیعہ مسلمانوں کے خلاف منفی پروپگينڈوں برے سلوک اور فرقہ وارانہ تشدد کے باوجود سات ملین افراد حقیقی اسلام محمدی اختیار کرے راہ حق پر گامزن ہوچکے ہیں، اسی وجہ سے یہ بات کہ نائجیریا کے مسلمانون کی تعداد کل آبادی کا پانچ فیصدی حصہ ہے کچھ صحیح نہیں لگتی۔البتہ ایک اہم بات جس پر توجہ کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ نائجیرین شیعوں کی پچانوے فیصد تعداد مستبصرین پر مشتمل ہے یعنی اس سے پہلے وہ مذہب تشیع سے ناواقف تھے اور انہوں نے مذہب حقہ اختیار کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے موقع پر نائجیریا میں محض پانچ سو افراد شیعہ تھے اور اب ان کی تعداد سات ملین تک پہنچ چکی ہے یعنی ربع صدی میں ان کی تعداد میں چودہ ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشیع کے لئے نائجیریا میں زمیں ہموار ہے اور اس کے علاوہ یہ خبرین بھی ملتی رہتی ہیں کہ نائجیریا کے عیسائي مسلمان ہورہے ہیں اور فرانس پریس نے دبے الفاظ میں اس امر پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ اگر نائجیریا میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد میں کم از کم سات یا آٹھ گنا اضافہ ہوجائے تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ نائجیریا میں آبادی کا تناسب کیا ہوگا۔ نائجیریا مغربی افریقہ میں ایک طاقتور ملک ہے جو اس براعظم میں سامراج کے مقابل بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے اور یقینا سامراج اور اسکے چیلوں نے اس افریقی ملک کے لئے بڑے منصوبے بنا رکھے ہیں۔
نائجیریا کے شیعہ مسلمانوں کو اس لحاظ سے بھی خطرہ لاحق ہے کہ شیخ ابراہیم زکزاکی کو نائجیریا کا نصراللہ کہا جاتا ہے۔انہوں نے بوکو حرام کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نائجیریا میں شیعہ مسلمانوں پر فوج کےحملوں کا تعلق عراق، شام اور یمن و لبنان میں سعودی عرب کی پے در پئے شکستوں سے ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ آل سعود کی حکومت افریقہ کے مسلمانون کے درمیان اختلافات و تفرقے کی آگ بھڑکانے کی کوشش کررہی ہے تا کہ اس علاقے کو بھی شدید اختلافات کا شکار بناسکےبالخصوص اس وجہ سے بھی کہ سعودی بادشاہ اور نائجیریا کے سربراہ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نائجیریا کے صدر سلفی وہابی نظریات کے حامل ہیں اور بوکو حرام کے ساتھ رواداری سے پیش آرہے ہیں۔ جس چیز نے نائجیریا کے دشمنوں کی نیندیں حرام کردی ہیں وہ ان کی تعداد میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے کیونکہ اگر اسی تیزی کے ساتھ ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ چند دہائيون میں نائجیریا کی آبادی کی اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہوگي جو صیہونیوں اور ان کے حلیف سعودیوں کو ہرگز پسند نہیں ہے۔