الوقت- بنگلادیش جیسا کمزور معیشت کا ملک جس کی آبادی بھی ایک سو ساٹھ ملین ہے کافی عرصے سے مختلف سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے ۔حکمران حماعت مختلف حربوں سے مخالفین کو سیاسی میدان سے نکالنے میں کوشاں ہے۔حال ہی میں
بنگلادیش کی حکومت نے سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کے خلاف انجام پانے والی کاروائیوں کی خبروں کے نشرہونے کی روک تھام کے لئے ایک ماہ کے لئے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی ہے۔ حکومت ڈھاکہ نے حکومت مخالف دو افراد کو پھانسی کی سزا سے متعلق خبریں پھیلنے کے بعد سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے اقدامات کئے ہیں۔ بنگادیش کے سپریم کورٹ نے علی حسن مجاھد اور صلاح الدین قادر چودھری کو موت کی سزا سنائی تھی جس پرپورے ملک میں وسیع پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں۔ واضح رہے حکومت بنگلادیش نے حال ہی میں حکومت مخالف رہنماؤں بالخصوص جماعت اسلامی کے بعض رہنماوں کو بقول اس کے سنہ انیس سو اکہتر میں بنگلادیش کے خلاف پاکستانی جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر پھانسی کی سزاسنائی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ نے علی حسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی کا فیصلہ سنائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان دونوں افراد کو عدالت نے انیس سو اکہتر میں بنگلادیش کی جنگ آزادی کے دوران قتل عام میں ملوث ہونے کے الزام میں مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائی تھی لیکن بنگلادیش میں عدالت کے اس فیصلے پر کافی ہنگامہ ہوا ہے۔ دوہزار دس میں بنگلادیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جنگی جرائم کی عدالت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس عدالت کی تشکیل کا مقصد انیس سو اکہتر میں بنگلادیش کی جنگ آزادی میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والے مبینہ ملزموں پر مقدمہ چلانا تھا۔ اس عدالت میں جماعت اسلامی اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنماوں پر مقدمے چلائے جارہے ہیں اور کچھ لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔
بنگلادیش نیشنلٹ پارٹی کی صدر خالدہ ضیا نے اس عدالت کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ھدف اپوزیشن پارٹیوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی شیخ حسینہ واجد کی حکومت پر سیاسی انتقام لینے کے الزامات لگائے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق الوقت- بنگلادیش میں سوشیل میڈیا پر پابندی عائد کرنا اس بات کا غماز ہے کہ بنگلادیش میں مخالفین کے ساتھ پیش آنے میں حکومت کے اقدامات اور وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی پالیسیوں کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔ بنگلادیش میں حکومت کے مخالف سیاسی اور صحافتی حلقوں کی نظر میں حکمران جماعت عوامی لیگ مکمل طرح سے اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے جمہوری اصول پامال کئے جارہے ہیں اور بڑی سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں قائم کرنے اور ان کے رہنماؤں کو پھانسی دے کراہم اور بڑی سیاسی پارٹیوں کو کمزور بنانےکی کوشش کی جارہی ہے۔ خالدہ ضیا کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی بنگلادیش کی بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی ہیں لیکن شیخ حسینہ واجد نے حالیہ برسوں میں ان پارٹیوں کو کمزور بنانے کی بے پناہ کوششیں کی ہیں۔
اس کشمکش میں بنگلادیش کے ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی کارکردگی پر رد عمل ظاہر کرکے نہ صرف بنگلادیشی قوم کو آگاہ کیا ہے بلکہ تجزیے و تحلیل کے ذریعے حکومت مخالف لہر پیدا کردی ہے۔ ظاہر سی بات ہےکہ اس صورتحال کو شیخ حسینہ واجد اپنے فائدہ میں نہیں دیکھتی ہیں، اسی وجہ سے ان کی حکومت نے ایک ماہ تک سوشل میڈیا پر پابندی لگادی ہے اور اس پابندی کا ھدف ایک طرف تو انہیں انتباہ دینا ہے اور دوسری طرف مستقبل میں حکومت مخالف خبروں کی اشاعت کی روک تھام کرنے کے لئے ان پر دباؤڈالنا ہے کیونکہ اس طرح کی خبروں کی اشاعت حکمران پارٹی کے خلاف ایک بڑی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتی ہے