الوقت-روس نے کچھ ہفتوں قبل شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی ہے۔ روسی بمباری میں داعش کو نہایت شدید جانی اور مالی نقصان پہنچا ہے۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ داعش کو صرف تازہ دم اور پیشہ ورانہ زمینی فوج کے ہاتھوں ہی نابود کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں لگتا ہےکہ روس تدریجا شام کے لئے زمینی فوج بھیجنے کی تیار کررہا ہے۔ برطانیہ کے اخبار ڈیلی اسٹار نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیار کررہے ہیں تا کہ شام کے الرقہ علاقے میں داعش کے ہیڈ کوارٹر پرقبضہ کرسکیں۔ روس کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ داعش کی مکمل نابودی کے لئے ڈیڑھ لاکھ روسی فوجی شام بھیجیں گے اور یہ اقدام شام کے صدر بشار اسد کی درخواست پر کیا جائے گا۔ اخبار اکسپریس کی رپورٹ کے مطابق صدر ولادیمیر پوتین نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ روس کا یہ اقدام فرانس اور دیگر ملکوں کی جانب سے داعش کی مکمل نابودی کی درخواست کے جواب میں انجام پارہا ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش نے شام کے علاقے الرقہ کو اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے اور اس شہر میں پانچ ہزار داعشی دہشتگرد موجود ہیں۔
روس کی فوج نے گذشتہ ماہ سے شام کی باضابطہ درخواست پر اور پارلیمنٹ کی اجازت ملنے کےبعد شام میں دہشتگردوں بالخصوص داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی تھی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق روس کے حملوں میں داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی اور فوجی امور کے مبصرین کا کہنا ہےکہ داعش کی مکمل نابودی کے لئے وسیع زمینی کارروائيوں کی ضرورت ہے۔ امریکی سنیٹروں نے بھی کہا ہےکہ شام میں ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل بری فوج بھیجی جائے جو داعش کے خلاف لڑے۔
روس نے گذشتہ دنوں یہ اعلان کیا تھا کہ داعش کے خلاف عنقریب نہایت وسیع حملے شروع ہونے والے ہیں اور یہ حملے بری اور بحری افواج مل کر کریں گي اور دسیوں اسٹراٹیجیک بمبار طیارے بھی ان حملوں میں شریک ہونگے۔ روس نے یہ اعلان کرتے ہوئے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہر طرح کے اتفافی حادثے کی روک تھام کے لئے شمالی عراق کےلئے پروازین بند کردے۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہمہ گير نابودی نامی کارروائيوں میں بحیرہ روم میں تعینات روس کی آبدوزیں اور جنگي جہاز بھی حصہ لیں گے۔ ادھر جرمن جرائد نے لکھا ہے کہ ان کارروائیوں میں روس کی بحریہ اور فضائیہ کے ساتھ ساتھ محدود پیمانے پر بری فوج بھی حصہ لے گي۔ اگر روسی فوج شام بھیجی جاتی ہے تو اس صورت میں داعش کے خلاف روسی حملوں کا اہم ترین موڑ دیکھنے کو ملے گا کیونکہ کرملین کی رپورٹوں کے مطابق روس کا ھدف الرقۃ میں دہشتگردوں کی نابودی ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی خود ساختہ خلاف کا گڑھ عنقریب نابود ہوکرخاک میں مل جائے گا اور داعش کے دہشتگردوں کے پاس موصل فرار ہونے کےعلاوہ اور کوئي چارہ نہیں رہے گا اور موصل میں عراقی فوج عوامی رضاکاروں کے ہمراہ داعش پر کاری ضربیں لگانے میں مشغول ہے۔
روسی فوج کے شام میں آنے سے داعش کےخلاف جنگ میں نیا موڑ آجائے گا اور وہ داعش کی مکمل نابودی سے عبارت ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ مغربی ممالک جنہوں نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اور غیر منطقی اقدامات سے علاقے کو بدامنی اور عدم استحکام کا شکار بنادیا ہے وہ صدر پوتین کے اس اقدام کے مقابل کیا موقف اپناتے ہیں۔