الوقت- جب ہم داعش کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں یا اس وحشی دہشتگرد گروہ کے مستقبل کے بارے میں کوئي پیشین گوئی کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے کہ ہمارے مد نظر داعش کی کونسی شکل و صورت ہے۔ اس سلسلے میں چار صورتوں کا امکان پایاجاتا ہے۔ یکم داعش ایک حکومت کی صورت میں، دوم داعش ایک باغی تنظیم کی صورت میں، سوم داعش ایک عالمی جہادی تنظیم کی صورت میں اور چہارم داعش ایک مکتب فکر کی صورت میں۔
داعش حکومت کی صورت میں:
عراق اور شام میں داعش کی اعلان شدہ حکومت سے مقابلہ اور اسے ختم کرنا عراق وشام کی حکومتوں کےبنیادی اقدامات کے اھداف ہیں۔ داعش کے مستقبل کے بارے میں اظہار نظر کرنے کے تعلق سے اس بات کی حکومت بہت بڑھ جاتی ہے کہ کیا داعش حکومت کی صورت میں جاری رہ سکتا ہے اور اگر رہ سکتا ہے تو اسکی صورتحال کیا ہوگي۔ داعش کی حکومت کا مقابلہ کرنے میں متضاد نتائج حاصل ہوئے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں داعش کو بھگانے اور اس کی عمل داری کو ختم کرنے میں کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ بعض علاقوں میں داعش کو کامیابیاں ملی ہیں اور یہ گروہ پیش قدمی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان امور کے باوجود بغداد کے سر سے داعش کا بھیانک خطرہ ٹل چکا ہے اور کردوں کو بھی اپنے علاقوں سے داعش کو پسپائي پر مجبور کرنے میں کافی کامیابی حاصل ہوئي ہیں۔ تین طرف سے موصل کا محاصرہ کرلیا گيا ہے جبکہ تکریت کو آزاد کرالیا گيا ہے اور بیجی کے بیشتر علاقے آزاد کرالئے گئےہیں لیکن شہر رمادی اور صوبہ الانبار نیز سنی مثلث بدستور داعش کے زیر قبضہ ہے۔ داعش نے شہر پالمیرا اور اس کے اطراف کی تاریخی عمارتوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ داعش دہشتگرد گروہ کو ترکی سے ملی سرحد پر کرد علاقوں میں سب سے زیادہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ کوبانی اور تل ابیض اس گروہ کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اور اب وہ براہ راست ترکی کی سرحد تک دسترسی نہیں رکھتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں بھی جبکہ داعش کے خلاف شدید کاروائياں ہورہی ہیں یہ گروہ اپنی حکومت کابنیادی ڈھانچہ محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے گا ہرچند اس بات کا قومی امکان پایا جاتا ہے کہ عراق میں داعش کے قبضے سے بعض اہم علاقے آزاد کرالئےجائیں لیکن شام میں داعش کے زیر قبضہ اہم علاقوں کو آزاد کرانا قدرے مشکل ہوگا کیونکہ اس راہ میں بڑی روکاٹیں موجود ہیں لھذا یہ کہنا کہ داعش کی حکومت بعض ممکنہ اقدامات کے باوجود باقی رہے گي اور ظاہر سی بات ہے ایک اہم مسئلہ کی حیثیت سے باقی رہے گي۔
داعش تنظیم کی حیثیت سے
داعش کو حکومت تشکیل دئے ہوئے محض ایک برس کا عرصہ گذر رہا ہے اور اسکو اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عراق میں داعش اور القاعدہ نے دوہزار چار سے باغی گروہوں کی حیثیت سے سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ اگر ہم داعش مخالف سرگرمیوں کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہوئے یہ کہیں کہ آئندہ چند برسوں میں داعش کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا تو اس کے باوجود بھی داعش ایک باغی گروہ کی حیثیت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گا اور یہ ایک یقینی امر ہے۔ عراق اور شام کی بعض سیاسی شخصیتوں اور عوام کے کچھ دھڑوں کی جانب سے داعش کی حمایت اور عرب ملکوں میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہےکہ داعش کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں بھی وہ ایک باغی گروہ کی حیثیت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
داعش ایک عالمی جہادی تنظیم کی شکل میں
ایسے عالم میں جبکہ داعش کا اثر و رسوخ محض شام و عراق میں محدود تھا اب یہ دعوے کئےجارہے ہیں کہ دسیوں گروہ اس کے اتحادی بن چکے ہیں، البتہ یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ گروہ داعش نے نہیں بنائے ہیں بلکہ یہ داعش سے پہلے بھی موجود تھے اور دیگرگروہوں سے جدا ہوکر داعش میں شامل ہوئے ہیں، ان میں بیشتر گروہ القاعدہ میں شامل تھے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ گروہ داعش سے ہٹ کر عمل کرتے ہیں اور اگر داعش کا خاتمہ ہوبھی گيا تو یہ گروہ ختم نہيں ہونگے اور نہ ان کی سرگرمیاں رکیں گي۔ اس کی ایک زندہ مثال القاعدہ ہے۔ القاعدہ کے تین چوتھائي کمانڈر مارے جاچکے ہیں اور اس کی آپریشنل صلاحیتیں ختم کردی گئي ہیں لیکن القاعدہ آج بھی سرگرم عمل ہے اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پندرہ ملکوں میں اتحادی گروہوں کےساتھ مل کر کام کررہا ہے۔
داعش ایک مکتب فکر کی حیثیت سے
چوتھی اور آخری ممکنہ صورت داعش کا ایک مکتب فکر کی حیثیت سے عمل کرنا ہے۔ داعش کی طاقت کا راہ ہی اس کے افکار و نظریات ہیں۔ آج داعش ایک معروف گروہ کے طورپر سامنے آچکا ہے اور مسلمان اس کی طرف متوجہ ہیں۔ افکار نظریات سے جنگ کرنے کی ایک منفی خصوصیت یہ ہے کہ انہیں فوجی لحاظ سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ افکار ونظریات کو بہتر اور مضبوط افکار سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ مغرب میں پروپگینڈے کے علاوہ کوئي فکر طاقت نہیں ہے جس سے وہ داعش کو شکست دے سکے بلکہ یہ صرف اور صرف خالص اسلام محمدی کا فریضہ ہے کہ وہ فکری اور نظری لحاظ سے داعش جیسے کھوکھلے نظریات رکھنے والے گروہ کو شکست دے اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب وہابیت کا خبیث مکتب فکر حقیقی اسلام محمدی کے ہاتھوں شکست کھا کر نابود ہوجائے گا۔