الوقت- مصر کی اسلامی تحریکوں کے نظریہ پردازوں اور ان کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں ایران سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین سید جمال الدین اسد آبادی قابل ذکر ہیں۔
ان کا شمار عالم اسلام میں وحدت و یک جہتی کے سب سے بڑے علمبرداروں اور دینی اصلاحی فکر کے بانیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد و یگانگت کے لئے اپنی پوری کوششیں بروئے کار لائیں۔
سید جمال الدین اگرچہ مصر میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں نے وہاں تعلیم حاصل کی تھی، لیکن وہ 9 برس تک مصر میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور دینی اصلاح کی فکر کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے اس کم عرصے میں بعض ایسے شاگردوں کی تربیت کی، جنہوں نے بعد کے ادوار میں مصر میں انقلابی و اصلاحی افکار کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
عالم اسلام کی سربلندی کے لئے سید جمال الدین نے مسلمانوں کو اپنے باطن کی طرف رجوع اور آگاہی و معرفت کے ساتھ ہر قسم کی بدعت و خرافات سے عاری حقیقی اسلام پر کاربند رہنے کی تلقین کی۔
چنانچہ انہوں نے اپنی تحریروں اور آثار میں مسلمانوں کو عقلی بیداری و تہذیب نفس اور مغرب زدگی اور یورپ کی تقلید کی نسبت خود اعتمادی حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔
سید جمال الدین کی جانب سے مختلف اسلامی ممالک کے دورے عالم اسلام کی وحدت و یک جہتی اور ہر قسم کے خرافات اور تعصب سے عاری اسلامی افکار و نظریات کے احیا و فروغ کے لئے ان کی اصلاحی فکر کی غمازی کرتے ہیں۔
لہذا اگرچہ سید جمال الدین کے نقطۂ نگاہ کو سلفی فکر کا نام دیا گیا، لیکن یہ مروجہ اور اصطلاحی سلفیت کے ساتھ مکمل طور پر اختلاف رکھتا ہے۔
سید جمال الدین کی فکر کا جائزہ لینے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ مصر کے بعض سلفی نظریات کو ان کے شاگردوں نے بیان کیا ہے۔
شیخ محمد عبدہ، سید جمال الدین اسد آبادی کے مشہور شاگردوں میں سے ایک ہیں، جو مصر کے مفتی اعظم کے عہدے پر پہنچے۔
سید جمال الدین کے افکار نے شیخ محمد عبدہ پر گہرے اثرات مرتب کئے، لیکن انہوں نے سید جمال الدین کے بر خلاف جو انقلابی روش پر یقین رکھتے تھے، اصلاحی طریقہ اپنایا۔
ان کا خیال تھا کہ تعلیم و تربیت کی روش میں تبدیلی اور معاشرے کی روحانی و اخلاقی نشو و نما کے ذریعے پسندیدہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
شیخ محمد عبدہ بھی سید جمال الدین کی مانند دین اور دینی تعلیمات کی طرف رجوع پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔
شائد شیخ عبدہ فکری ماہیت کے اعتبار سے سلفیت کے مفہوم سے زيادہ نزدیک تھے، لیکن وہ بھی فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے تھے، جو مروجہ اصطلاحی سلفیت کی خصوصیات میں شامل ہے۔
شیخ عبدہ فرقہ واریت کی حامی سلفیت کے برخلاف اجتہاد اور شریعت و قرآن و سنت کے مآخذ سے استنباط کی روش پر تاکید کرتے اور محض ائمۂ اربعہ کی تقلید پر بھی اکتفا نہیں کرتے تھے۔
ان کی نظر میں اسلامی فرقے صرف شرعی مآخذ سے احکام کے استنباط واجتہاد کے ذرائع ہیں اور ان فرقوں کے چار اماموں نے اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان فقہوں کی بنیاد پر احکام کے استنباط کئے تھے، چنانچہ خود انہوں نے اپنی تقلید کرنے کی کبھی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اس مسئلے پر اصرار ان کی مشہور تفسیر قرآن کی کتاب میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔
شیخ محمد عبدہ کے نقطۂ نگاہ کی بنیاد پر حامعۃ الازہر نے شیعۂ امامیہ اور شیعۂ زيدیہ کو بھی دو اسلامی فرقوں کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ۔
سلفیت سے شیخ محمد عبدہ کا ایک اور فرق عقلیت پر ان کا یقین تھا، یہاں تک کہ وہ حسن و قبح عقلی کے بھی قائل تھے اور یہ نظریہ سلفی نظریات سے بالکل متضاد ہے۔
اسی طرح جبر و اختیار اور قضا و قدر الہی کے مسائل میں بھی شیخ محمد عبدہ اصطلاحی سلفی مکتب فکر کے نقطۂ نگاہ سے مکمل طور پر اختلاف رکھتے ہیں۔
شیخ محمد عبدہ نے اپنے دور میں مصری عوام کی ثقافتی نشو و نما اور ارتقا کے لئے مساعی جمیلہ انجام دیں، وہ مصر کے اسلامی مفکرین میں عالم اسلام کی وحدت و یک جہتی کے لئے کوشاں مصلح رہنما کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔