الوقت- افغانستان ایک بار پھر عالمی خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے ۔طالبان کے سرغنے ملا اختر منصور کی صورتحال کے مبہم ہونے کے پیش نظر طالبان کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ ھیبۃ اللہ آخوند زادہ کو طالبان گروہ کا سرپرست معین کیا گیا ہے۔ طالبان گروہ سے قریب ایک ذریعہ نے ریڈیو تہران کی پشتو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے جمعے کے روز ہیبۃ اللہ آخوند زادہ کو جو ملا اختر منصور کے نائب اول تھے اس گروہ کا سرپرست معین کردیا ہے۔ طالبان نے اپنے خود ساختہ گورنروں اور کمانڈروں کو پیغام بھیجا ہے کہ ملا اختر محمد منصور داخلی جھڑپوں میں زخمی ہوگئے ہیں اور ان کے علاج میں تقریبا آٹھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ طالبان سے قریب اس ذریعے نے اسی کے ساتھ ساتھ کہا ہے کہ اس بات کا امکان پایاجاتا ہے کہ ملا اختر منصور اسپتال پہنچنے سے پہلے زخموں کی شدت کی بنا پر ہلاک ہوگئے ہوں لیکن اگر اس بات کا اعلان کردیاجائے تو اس سے طالبان کے کارکنوں پر منفی اثرات پڑیں گے لھذا صرف اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ملا منصور زحمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کے سرغنے ملا اختر منصور کے زخمی یا مارے جانے کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ان خبروں کا اعلان طالبان کے کمانڈروں اور کابل حکومت نے کیا ہے۔
افغانستان کے نائب صدر کے ترجمان سلطان فیضی نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ ملا اختر منصور منگل کوکوئٹہ میں اندرون گروہ ایک جھڑپ میں زخمی ہوگئے تھے اور شدید زخموں کی بنا پر ہلاک ہوگئے۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت سے قطع نظر طالبان کے بعض کمانڈروں سے ان کی جھڑپیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ طالبان میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ طالبان کے سابق سرغنے ملا محمد عمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سرغنہ معین کیا گیا تھا لیکن طالبان کے بعض کمانڈروں نے یہ کھ کر کہ سربراہ کے انتخاب کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا ملا اختر منصور کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان کے ناراض کمانڈروں نے آخر کار ملا محمد رسول کو اپنا سرغنہ معین کر کے ملا اختر منصور سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔ اس سے طالبان کے اندر اختلافات میں مزید شدت آگئی۔
ملا اختر منصور کی صورتحال کےبارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کابل میں ہندوستان کے سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان ملا اختر منصور کو راستے سے ہٹا کر حقانی ٹیٹ ورک کو طالبان پر مسلط کرکے کوئٹہ کونسل کو بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا زیادہ فرمانبردار اور تابع ہے ۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا اختر منصور کو طالبان کی قیادت سے اس وجہ سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا ہے کہ وہ طالبان کو متحد کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی قیادت میں طالبان کے اندر اختلافات میں شدت آئی ہے جو اس سے زیادہ طالبان کا شیرازہ بکھیر سکتی تھی۔
واضح رہے پاکستان ملا عمر کی سیکورٹی کا ذمہ دار تھا یہانتک کہ پاکستان نے ملا عمر کی موت کو بھی صیغہ راز میں رکھا تھا لھذا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان بھی مائل تھا کہ ملا اختر منصور کو ہٹایا جائے اور کسی نئی فرد کے ہاتھوں میں طالبان کی باگ ڈور دیدی جائے جو اس گروہ میں نئی روح پھونک سکے۔ہرچند پاکستان کی حکومت طالبان کے اختلافات کو اس گروہ کے اندرونی مسائل سے تعبیر کرتی ہے لیکن چونکہ پاکستان طالبان پر بے حد اثرورسوخ رکھتا ہے لھذا مستقبل میں طالبان میں آنے والی کسی بھی طرح کی تبدیلیاں پاکستان کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہونگی۔ اس وجہ سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ اور افغانستان میں قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی اور یہ کہ طالبان کے اندر تبدیلیوں رونما ہونگی۔ ان امور کے پیش نظر افغانستان میں بعض سیاسی مبصرین ملا اختر منصور کی صورتحال کے بارے میں پاکستان کی خاموشی کو قابل غور اور مبہم سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اب تک یہ بات مکمل طرح سے واضح نہیں ہوسکی ہے کہ پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی جو افغانستان کے امور کی ذمہ دار ہے مستقبل میں افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں اور طالبان کے بارے میں کیا پروگرام رکھتی ہے۔