الوقت- نادانی اور جہالت کو ہر عقلمند انسان ناپسند کرتا ہے۔ جہالت کی شدّت تعصّب پر منحصر ہوتی ہے، کوئی بھی شخص جتنا زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتا ہے، اس کی جہالت بھی اتنی ہی وحشتناک اور ہیبت ناک ہوتی ہے۔ میدانِ عمل میں جاہل دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو جاہل، عالم سے ٹکراتا ہے اور یا پھر جاہل، جاہل سے پنجہ ازمائی کرتا ہے۔ عقلِ سلیم کا یہ آخری فیصلہ ہے کہ میدانِ جنگ میں جاہل، جاہل کے ساتھ تو ٹکرا سکتا ہے، لیکن کبھی بھی عالمِ حقیقی، عالمِِ حقیقی کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔[1] اگر کسی کو میدانِ جنگ میں دونوں طرف حق ہی صف آرا نظر آرہا ہو تو ایسا شخص یقیناً حق کی شناخت کھوچکا ہے اور اسے چاہیئے کہ وہ دوبارہ حق کو پہچانے، تاکہ میدانِ جنگ میں حقیقی اہلِ حق اور مصنوعی اہلِ حق کے درمیان فرق کرسکے۔[2] میدانِ جنگ میں کودنے سے پہلے انسان کے لئے حق اور باطل کی صحیح شناخت ضروری ہے۔ یہاں پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ جتنی ضروری حق و باطل کی شناخت ہے، اتنا ہی ضروری حق اور باطل کے درمیان فرق رکھنا بھی ہے۔ [3] اگر کوئی شخص حق کو پہچانے اور حق کو باطل سے الگ نہ کرے تو گویا اس نے حق کو پہچانا ہی نہیں۔
انسان کو حق و باطل کی شناخت کے لئے غور و فکر اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے جرات و ہمّت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ کے نزدیک بھی بدترین لوگ وہی ہیں جو غور و فکر سے کام نہیں لیتے۔[4] اگر انسان غور و فکر سے کام نہ لے تو وہ حق و باطل کے معیارات اپنے خیالات اور تصوّرات کے مطابق طے کر لیتا ہے اور پھر انہی من گھڑت تصوّرات کو اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی غلط عقائد اور تصوّرات و توہمّات کا وجود ہے، ان کا علاج صرف اور صرف غور و فکر میں پنہاں ہے جب مسلمان غور و فکر کے راستے پر چل پڑے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غور و فکر سے اسے حق و باطل کی شناخت تو حاصل ہوسکتی ہے، لیکن حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔[5] یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو حق کی نصرت اور باطل کی مخالفت پر اکساتا ہے۔ تقویٰ اگر غور و فکر کے ہمراہ ہو تو بصیرت کہلاتا ہے اور اگر غور و فکر سے جدا ہوجائے تو یہی تقویٰ حق کے لئے مضر اور باطل کے لئے نفع بخش بن جاتا ہے اور ایسا متقی بظاہر متقی نظر آتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں متقی نہیں ہوتا۔
حقیقی تقویٰ وہی ہوتا ہے جو بصیرت کے ہمراہ ہو اور حقیقی متّقی وہی ہوتا ہے جو بصیر ہو۔
لوگ بظاہرخواہ کتنے ہی متّقی کیوں نہ ہوں، اگر وہ بغیر غور و فکر کے میدان میں اتر جائیں تو وہ فیصلہ کن مراحل میں درست فیصلے نہیں کر پاتے۔ جس کا سارا نقصان حق اور اہلِ حق کو پہنچتا ہے۔ ایسے نام نہادمتّقی جو حق کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی روشن مثالوں میں سے خوارج ہیں۔ حضرت امام علیؑ کے زمانے میں دنیائے اسلام کو خوارج کی شکل میں سب سے بڑی مشکل درپیش تھی۔ خوارج کی تاریخ کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خوارج بظاہرتقویٰ اور ناسمجھی سے مرکّب تھے۔ یہاں ناسمجھی سے ہماری مراد صرف نادانی اور جہالت نہیں بلکہ کسی کے سمجھانے کے باوجود بھی حقائق کو نہ سمجھنا ہے۔ پیغمبرِ اسلامﷺ کے بعد خوارج ایسے دور کی پیداوار تھے کہ جس میں مسلمانوں کی توجہ تعلیم و تربیّت کے بجائے لڑائی اور کشور کشائی پر مرکوز تھی۔[6] اس زمانے میں تعلیم و تربیّت کے بغیر فعالیت نے خوارج کی صورت میں نادان اور ہٹ دھرم نام نہاد متقّی حضرات کو جنم دیا تھا۔[7]
خوارج ایسے نام نہاد متّقی اور ناسمجھ تھے کہ انہیں اپنے زمانے کے امام کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہمارے وقت کے امامؑ بھی ظہور کریں گے تو اس وقت بھی بہت سارے نام نہاد متّقی، فعّال اور ناسمجھ لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ خوارج بظاہر ایسی خصوصیات کے حامل تھے کہ اگر ہمارے جیسے لوگ انہیں دیکھ لیتے تو کہتے کہ چلو ٹھیک ہے، دینی تعلیم و تربیت میں کمزور ہیں یہ تو کوئی بڑی بات نہیں، لیکن یہ بے چارے فعالیّت تو بہت کرتے ہیں اور بظاہرمتقی بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امام علیؑ نے انہی فعاّل لوگوں کو بدترین لوگ قرار دیا ہے۔
خوارج کی چیدہ چیدہ خصوصیات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ منہ پھٹ تھے
خوارج کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ منہ پھٹ تھے اور دوسروں کو ظالم، کافر وغیرہ کہتے پھرتے تھے۔
2۔ مردِ میدان تھے
خوارج کی دوسری صفت یہ تھی کہ جنگ و جدال سے ڈرتے یا گھبراتے نہیں تھے بلکہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہم بہت جھگڑالو ہیں۔
3۔ بہترین عبادت گزار تھے
خوارج کی تیسری اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ بہترین قاری قرآن اور ہر وقت نماز و روزے میں رہنے والے لوگ تھے۔
4۔ جانثار تھے
خوارج کی چوتھی نمایاں صفت یہ تھی کہ اپنے عقیدے پر جان قربان کر دیتے تھے۔
5۔ متعصب تھے
خوارج کی پانچویں نمایاں بات یہ تھی کہ اپنے عقیدے کا تحفظ اور دفاع عقل و دلیل کے بجائے تعصب کی بنا پر کرتے تھے۔
6۔ تعلیم و تربیّت میں عقب ماندہ
خوارج کی چھٹی صفت یہ تھی کہ تعلیم و تربیّت میں عقب ماندہ اور پسماندہ تھے۔
حضرت امام علیؑ کے زمانے میں خوارج نہ صرف یہ کہ خود جہانِ اسلام کے لئے بہت بڑی مشکل تھے بلکہ بہت زیادہ مشکلات کو جنم بھی دیتے تھے۔ خوارج دنیائے اسلام میں جس سب سے بڑی مشکل کے باعث بنے وہ یہ ہے کہ لوگ بغیر دینی تعلیم کے دینی فعالیت کرکے گمراہ ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی خوارج نے دنیائے اسلام میں اس طرزِ عمل کی بنیاد ڈالی کہ دین کے صحیح ادراک اور اسلام کی درست سوجھ بوجھ کے بغیر دین کے نام پر فعالیّت کی جائے۔ خوارج کے اس غلط طرزِ تفکّر کا خمیازہ آج بھی ہم مختلف بدعات و رسومات اور طالبان و داعش کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ دینِ اسلام کی تعلیم و تربیت کے بغیر دینِ اسلام کی خاطر میدان میں نکلنے کا یہ نتیجہ ہے کہ میدانِ کربلا میں لشکرِ یزید کا سپاہ سالار عمر ابن سعد یہ آواز دے رہا تھا کہ اے لشکرِ خدا سوار ہوجاو میں تمہیں جنّت کی خوشخبری دیتا ہوں۔[8][9]
یہی طرزِ تفکر جو خوارج کا تھا کہ وہ جنّت کے حصول کے لئے خلیفہ برحق اور امام حق حضرت امام علیؑ کے قتل کی خاطر نکلے تھے، اسی فکر اور عقیدے کے لوگ میدانِ کربلا میں فرزندِ رسولﷺ اور آل رسولﷺ کے قتل پر نکلے ہوئے تھے اور وہ 61 ھجری میں آلِ رسولﷺ کو شہید کرکے جنّت حاصل کرنا چاہتے تھے، پھر یہی فکر اور عقیدہ وقت کے ساتھ ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا رہا اور آج عصرِ حاضر کے خوارج پوری امّت رسولﷺ کو قتل کرکے جنّت میں جانا چاہتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں جس طرح خوارج یعنی دین کی صحیح سوجھ بوجھ رکھے بغیر دینی فعالیّت کرنے والوں نے دینِ اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح معرکہ کربلا نے بھی خوارج کے طرزِ تفکر پر کاری ضرب لگائی ہے۔ شہدائے کربلا نے اپنے سرخ خون سے خوارج کی فعالیّت پر ایسا خطِ بطلان کھینچا ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص غیر جانبدارانہ طور پر تاریخ ِ کربلا کی ورق گردانی کرتا ہے تو خوارج کے تفکّر کو رد کر دیتا ہے۔
غور و فکر اور تحقیق کرنے والا انسان تاریخ کربلا کے مطالعے سے اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوندِ عالم کو صرف نیک اور متقی اور فعال مسلمان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خداوندِ عالم کو ایک سمجھدار، عاقل، دانا، عالم، متقی اور فعال مسلمان کی ضرورت ہے۔ ماہَ محرّم الحرام میں جہاں ہمیں بہت زیادہ دینی فعالیّت انجام دینی ہے، وہیں ہمیں دین کو صحیح سمجھنے کی بھی کوشش کرنی ہے۔ اگر ہم بھی دین کو صحیح سمجھے بغیر دینی فعالیّت انجام دیتے رہیں گے تو کہیں نہ کہیں خوارج کے لشکر کی تقویّت اور حق کی کمزوری اور ضعف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خوارج کسی نسل، قوم یا قبیلے کا نام نہیں ہے بلکہ دینی فہم و فراست کے بغیر دینی فعالیت انجام دینے کا نام ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کربلا ایک ابدی جنگ ہے، نادانوں اور جاہلوں سے اور وہ نادان اور جاہل خواہ کسی بھی ملک، قوم و قبیلے اور مکتب سے تعلق رکھتے ہوں۔
[1]۔ مثلاً اگر ایک ورق خون سے لکھا ہوا ہو اور دونوں کو علم ہو کہ یہ خون سے لکھا ہوا ہے تو ان میں کوئی جھگڑا نہیں ہوگا، جھگڑا تب ہوگا جب ایک کہے گا کہ یہ خون سے لکھا ہے اور دوسرا کہے گا کہ یہ سرخ رنگ سے لکھا ہے، یعنی ایک حق پر ہوگا اور دوسرا باطل پر اور یا پھر ایک کہے گا کہ یہ سرخ رنگ سے لکھا ہے اور دوسرا کہے گا کہ نہیں یہ انار کے پانی سے لکھا ہے یعنی دونوں باطل ہونگے۔
[2] استفادہ از إِنَّ دِينَ اللَّهِ لَا يُعْرَفُ بِالرِّجَالِ بَلْ بِآيَةِ الْحَقِّ وَ اعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ أَهْلَهُ۔ (إرشاد القلوب إلى الصواب، ج2، ص296)
[3] وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔۔۔ البقرة آیه: 42
[4] إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذينَ لا يَعْقِلُونَ۔الأنفال: 22
[5] استفادہ از يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً۔الأنفال آیه ۲۹
[6] استفادہ از آثارِ شہید مطہری
[7] استفادہ از سیری در سیرہ نبوی از شہید مطہری
[8] یا خیل الله ارکبی و بالجنه ابشری
[9] موج فتنه از جمل تا جنگ نرم قلمکار احمد حسین شریفی
:۔ نوٹ:۔ تقویٰ کے موضوع پر ہمارا الگ سے ایک [مقالہ تقویٰ قرآن و سنّت کی روشنی میں ]موجود ہے۔