الوقت۔ پاکستانی اخبار "ڈان" نے اسلام آباد، واشنگٹن کے درمیان کابل، طالبان امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کی خبر دی ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ کے دوران ہوا، جس پر فریقین نے دستخط کئے۔ ڈان اخبار نے افغانستان کو نواز شریف اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کا اصلی محور قرار دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی، کہ پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات، فوجی تعاون، جوہری ہتھیاروں اور خطے کے دوسرے مسائل پر امریکی اعلٰی حکام سے بات چیت کی۔ یہ سب ایسے وقت میں انجام پایا، کہ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد واشنگٹن تعلقات میں بہتری کے لئے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ گذشتہ سال نومبر میں راحیل شریف نے امریکی اعلٰی فوجی حکام سے ملاقاتیں کی، ان ملاقاتوں کے دوران یہ موضوع زیربحث رہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود دہشتگروں کیخلاف فوجی آپریشن کیا جائے۔
اسی طرح "ایکسپریس نیوز" نے لکھا ہے کہ، امریکی حکام نے اعلان کیا کہ جلد ہی افغانستان کے وزیراعظم اشرف غنی سے رابطہ کر کے ان سے تقاضا کریں گے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر اپنا موقف واضح کریں۔ امریکہ افغانستان سے درخواست کریگا کہ وہ پاکستانی سربراہان سے رابطہ برقرار کر کے امن مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں اپنا موقف واضح کرے، تاکہ پاکستانی سربراہان بھی اس سلسلے میں طالبان سے رابطہ کر کے انہیں امن مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی سیاسی پالیسیوں و خطے میں علاقائی اثر و رسوخ کے نفوذ کے لئے ان انتہا پسند گروپوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ افغان اور پاکستانی حکومت کے امریکہ کی زیر نگرانی ہونیوالے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے دوسرے دور کے آغاز سے پہلے طالبان کے سربراہ ملا عمر کی موت کے اعلان کو پاکستانی ایجنسیوں اور میڈیا سے نسبت دے رہے ہیں۔ اسی لئے افغانستان، پاکستان کو مذاکرات کے ملتوی ہونے کی وجہ قرار دے رہا ہے۔
" امن مذاکرات کا پہلا دور "مری" اسلام آباد میں پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں کی موجودگی میں ہوا تھا۔ مذاکرات کے دوسرے دور کا تعین بھی دو جانب سے ہونا تھا کہ طالبان کےسربراہ "ملا عمر" کی موت کی وجہ سے ملتوی ہو گیا، اور اب ملا عمر کی موت کوچند ماہ گذرنے اور ملا اختر منصور کی سربراہی کے اعلان کے بعد سے، بعض موثر افراد نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دوبارہ افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان نے ملا اختر کی سربراہی میں اپنی طاقت دکھانے کے لئے افغانستان کے مختلف شمالی صوبوں جیسے قندوز، بدخشان، فاریاب، وغیرہ پر حملے کئے، اور اسلامی حکومت کے قیام کے درپے ہے، اور کسی قیمت پر اپنی حاکمیت کو داعش کے ساتھ تقسیم کرنے پر راضی نہیں، یہی وجہ کہ داعش کے بعض گروہوں کے ساتھ بھی انکی معرکہ آرائی ہو چکی ہے، لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملا اختر منصور، طالبان کے سپریم کمانڈروں سے بھی زیادہ آئی ایس آئی پاکستان کی سنتا ہے۔ یہ پیش بینی بھی کی گئی ہے کہ طالبان، افغانستان میں اپنی طاقت کے مظاہرے کے بعد، افغان حکومت سے مذاکرات کے خواہاں ہیں، کیونکہ اب طالبان اپنی خواہشات اور خیالات کے حصول کے درپے نہیں ہیں اور سیاسی نظام کو رائج کرنے کے پختہ ارادے سے کچھ پیچھے ہٹ گئے ہیں، دراصل طالبان کی زیادہ تعداد اسلامی حکومت کے احیاء کی بجائے، طالبان کے روپ میں مالی مدد اور اسلحے کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ان دنوں طالبان کا اعتقادی پہلو کمزور ہوا ہے، اور بعض موارد میں یہ بات دیکھنے میں آئی کہ دور دراز کے علاقوں بالخصوص، خانہ بدوش اور کم آبادی والے قبیلوں میں جنگ نے ایک ملازمت کی شکل اختیار کر لی ہے۔
آخرکار یہ کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طالبان کے ایک گروہ سے مذاکرات اور افغانستان سے مفاہمت کی صورت میں بھی افغانستان میں بدامنی کی صورتحال کا خاتمہ ممکن نہیں، کیونکہ بعض ممالک، بالخصوص امریکہ اس ملک میں امن اور سیاسی استحکام کے حق میں نہیں ہے، اور گذشتہ ۱۴ سال سے ان ممالک کی کارکردگی سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ باتیں محض ایک دعویٰ ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ کہ امریکہ اور اس کے مغربی اور عربی اتحادی اس خطے میں اپنی موجودگی اورمداخلت کو برقرار رکھنے کے لئے داعش جیسے انتہا و شدت پسند گروہ کی جانب دیکھ رہے ہیں، اور اپنی طرح طرح کی مبہم سیاسی پالیسیوں کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ داعش کو طالبان کا جایگزین کیا جائے۔ داعشی کہ جنہوں نے اپنی زیادہ فورس ان طالبان میں سے ہی لی ہوِئی ہے جو اس سے پہلے غیر ملکی افواج کے ساتھ ملوث تھے۔