الوقت- یمن میں سعودیوں کے ھولناک حملے اس بات کا باعث بنے کہ نہ صرف امریکہ اس ملک کے بارے میں موقف اختیار کرے، بلکہ سعودی عرب کو مہلک ہتھیار دینے لئے بھی تیار ہے۔ ایک اماراتی نیوز سائٹ "اخبار الساعہ" نے اعلان کیا کہ سعودی عرب، امریکہ سے لیزر کنٹرول خودکار بم، ایک ارب، ۲۹ کروڑ ڈالر میں خریدے گا۔ اس خبر کے مطابق، امریکی وزارت خارجہ نے سعودی عرب کی اس نوع کے بم، دوسرے اسلحہ اور ۴۰،۰۰۰ قسم کے جنگی سازو سامان کی خریداری کیلئے آمادگی کا اعلان کیا۔ امریکی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ "ان میں سے بعض بم خودکار لیزر کنٹرول ہیں، اور بہت ہی محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی قدرت رکھتے ہیں، اور یہ ریاض کی دفاعی طاقت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا امریکہ سے اسلحہ خریدنے کا اقدام سعودی امریکہ مشترکہ فریم ورک کا حصہ ہے۔
۲۰۱۴ ء میں سعودیہ نے اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، اور اسلحے اور جنگی ساز و سامان کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا۔ یاد رہے کہ یہ سب اس وقت ہے جب گذشتہ ۸ ماہ سے سعودی عرب نے مغربی یمن کے بیگناہ لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا ہے۔ سوک اتحاد کے مانیٹرنگ سیل نے سعودی عرب کے، یمن پر جارحانہ حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کا اعلان کیا، جن میں شروع سے اب تک کے شہداء کی تعداد ۷۴۹۵ افراد ہے، اور ۱۶،۰۰۰ زخمی ہیں۔ اسی سلسلے میں یمن کی انصار اللہ تحریک کے ایک فوجی کمانڈر نے اعلان کیا کہ پیر کے دن سعودی جنگی جہازوں نے یمن کے مختلف علاقوں پر ان بموں سے گولہ باری کی جن کے استعمال پر پابندی ہے۔ دوسری جانب مغربی میڈیا کچھ دن پہلے پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں، کہ جن میں ۱۳۰ افراد مارے گئے، کو تجزیہ و تحلیل کر رہا ہے۔ ایک امریکی سیاسی میگزین نے اس حملے کے بارے میں کہا کہ "اس حملے کی اصل وجہ داعش جیسے گروہ کا دہشتگرد "جان جہادی" نہیں بلکہ اسکے پیچھے سعودی عرب اور قطر کا ہاتھ ہے" جو اپنی مذہبی شخصیات کے ذریعے سے دہشتگرد عناصر کی تربیت کر کے دہشتگردانہ کارروائیاں کرواتے ہیں۔
اس میگزین کے رائٹر کی نظر کے مطابق، ۲۰۰۱ء سے اسلامک انتہا پسند وں سے مقابلے کی سیاست کسی بیماری کی صرف علامتوں کو ختم کرنیکے مترادف تھی، سیاسی میگزین پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق امریکیوں نے دہشتگردی کا جڑ سے علاج کرنے کی بجائے اسکو وسعت دی ہے۔ وہ افراد جو ۱۱ ستمبر کے حملوں میں سکول جاتے تھے، اب کافی بڑے ہو گئے ہیں اور سلفی شدت پسندانہ نظریات سے نہ صرف بخوبی آشنا ہیں بلکہ ان پر اعتقاد بھی رکھتے ہیں۔ اس بنا پر "جان جہادی" جیسے افراد کو ڈھونڈنے کی بجائے بہتر ہے ان مشکلات کی بنیادی وجوہات پر توجہ دی جائے۔ شیعوں، ایزدیوں اور مسیحیوں کے خلاف افراد کو وہابیت اور انتہاپسندی کی تربیت دے کر ان اقوام کو مرتد ثابت کیا جا رہا ہے۔ پولیٹیکو میگزین کا کہنا ہے کہ اگر چاہتے ہیں کہ گوانتانامو میں کسی کو قید کیا جائے تو بہتر ہے کہ سلفی اور وہابی مبلغین کو وہاں لے جائیں، نہ ان کو کہ جو ان کے تربیتی مکر و فریب کا شکار ہوئے۔ اس رپورٹ کے آخر میں یہ تاکید کی گئی، اگر انتہاپسندی اور تشدد کی روک تھام ممکن نہ ہو تو اس کا کریڈیٹ قطر اور سعودیہ کے حامیوں اور سلفی نظریات کے تھیوریسٹس کو دینا چاہیئے۔
دراصل امریکہ نے سعودیہ کے اسلحہ خریدنے کے ایگریمنٹ سے اتفاق کیا ہے۔ میگزین رپورٹ اور میڈیا ذرائع کے مطابق خطے میں دہشتگردی کا اصل سبب اور بنیاد سعودی عرب ہے، اس لئے اس ملک کی ہر طرح کی مدد خطے میں بدامنی کا باعث بنے گی۔ لہذٰا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس کے باوجود امریکہ سعودی عرب کی اتنی حمایت کرتا ہے اور اسے جنگی ساز و سامان فروخت کر رہا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی اسی مسئلے کی جانب نشاندہی کرتا ہے کہ تمام دہشتگرد گروہ کسی نہ کسی طرح امریکہ سے مرتبط ہیں، اور امریکہ ان سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے فائدہ اٹھا رہا ہے۔