الوقت- دنیا کی ہر تحریک میں طلبا کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے اور اسطرح کی تحریکون میں سب سےزیادہ قربانیاں بھی اس طبقے نے دی ہیں ۔مصر سے ملنے والی خبروں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس ملک کے حکام اپنے مخالفین کے خلاف تشدد آمیز پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور اسی کی بناء پر یونیورسٹیوں سمیت مصر کی کوئی بھی جگہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حملوں اور مظالم سے محفوظ نہیں رہی ہے۔
جس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مصر کے حکام پوری شدت کے ساتھ اپنے مخالفین کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مصر کے انسانی حقوق کے مرکز نے اس ملک کے طلبہ پر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے تشدد کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔
اس مرکز نے منگل کے دن ایک بیان میں طلبہ کے عالمی دن کی مناسبت سے سترہ نومبر کو اعلان کیاکہ سنہ دو ہزار تیرہ میں مصر کے صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد گزشتہ دو برسوں کے دوران دو سو پینتالیس طلبہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے جبکہ چار سو ستاسی طلبہ لاپتہ ہیں۔
اس مرکز نے مزید کہا ہےکہ ان دو برسوں کے دوران احتجاجات کے دوران پانچ ہزار بتیس طلبہ کو گرفتار کیا گیا جن میں سے دو ہزار چار کو آزاد کر دیا گیا جبکہ تین ہزار اٹھائیس طلبہ ابھی تک قید ہیں۔
اس بیان میں مزیدآیا ہے کہ مظاہروں میں شرکت کرنے کی وجہ سے ابھی تک چار سو ستاسی طلبہ کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق تین سو طلبہ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جن میں سے ساٹھ طلبہ کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں مقدمہ چلایا گیا۔ مصر کے صدر محمد مرسی کو سنہ دو ہزار تیرہ میں برطرف کر دیا گیا جس کے بعد سے مصر کے طلبہ سمیت اس ملک کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاجی مظاہرے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مصر میں یونیورسٹیاں دوبارہ کھلنے کے بعد قاہرہ حکومت نے اپنے مخالف طلبہ پر دباؤ میں شدت پیدا کر دی ہے۔
مصر کی حکومت کے نزدیک یونیورسٹیاں رائے عامہ کو اشتعال دلانے اور حقائق سے آگاہ کرنے کے ایک مرکز میں تبدیل ہو چکی ہیں اس لئے ان تعلیمی اداروں میں سختی کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں یونیورسٹیوں پر نظر رکھنے کے مقصد سے مصر کی حکومت نے پورے ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں کی نگرانی کی ذمےداری ایک پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے سپرد کر دی ہے اور وہ یونیورسٹیوں کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔
یہ اقدام ایسی حالت میں کیا گیاہے کہ جب حالیہ ہفتوں کے دوران سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مصر کے بڑے شہروں میں یونیورسٹیوں کے ارد گرد گشت کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے مصر کی حکومت کی جانب سے مخالفین پر تشدد میں اضافہ ہوتا جائے گا ویسے ویسے اس میں جاری بحران بحران میں شدت پیدا ہوتی جائے گی۔
اس وقت نہ صرف اخوان المسلمین بلکہ قانون کی حمایت نامی اتحاد بھی طلبہ کی حمایت سے مصر کے حکام کے خلاف میدان میں اتر پڑا ہے۔
مصر کے عوام کو توقع تھی کہ حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہو جائے گی لیکن نہ صرف یہ توقع پوری نہ ہوئی بلکہ السیسی کے عہد حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کھلے بندوں اور شدت کے ساتھ جاری ہے۔ نہ صرف اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے بلکہ گزشتہ برس دہشت گردی سے متعلق قانون کی منظوری کے ذریعے حکومت کے مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو سزائے موت اور طویل المیعاد قید کی سزاؤں سمیت دیگر کڑی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
مصر کی حکومت نے انسداد دہشت گردی کا قانون منظور کر کے مزید گھٹن اور ملک میں حفاظتی تدابیر سخت کرنے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔
اس قانون کے مطابق مصر کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ ہر طرح کے مظاہرے اور اجتماع کوکچل سکتی ہے اور اپنے ہر مخالف کو دہشت گردی کی حمایت کے بہانے گرفتار کرسکتی ہے۔ اور اپنے ہر مخالف گروہ پر دہشت گردی کی حمایت کے بہانے پابندی عائد کر سکتی ہے۔
مصر کے عوام خصوصا طلبہ کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرے جاری رہنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مصر کے موجودہ حکام کو عوام کے درمیان خوف و ہراس پھیلانے اور ان سے محمد مرسی کی برطرفی کو منوانے اور اس برطرفی کو جائز ثابت کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
مرسی اور انکی ٹیم کی ناکام کارکردگی نے آج مصر کی اسلامی تحریک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے اور اس میں طلبا کو سب سے زیادہ قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں اور اسکی بنیادی ذمہ داری اخوان المسلمین کی نااہل قیادت پر عائد ہوتی ہے جس نے بےبصیرتی اور نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کامیاب انقلاب کو شکست سے دوچار کردیا۔