الوقت- پاکستان کے بارے میں کسی قسم کا تجزیہ کرنا ایک مشکل امر ہے اس ملک میں اقتدار کی اتنی تہیں ہیں ہے کہ کوئی حتمی بات کہنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اقتدار کی ان تہوں کا ملک کے سیاسی اور سلامتی پراثر اندار ہونا ایک فطری امر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے بارے میں کسی قسم کا تجزیہ کرتے وقت فوج اور اسکے ماضی کے بارے میں گہرا علم ہونا ضروری ہے۔
پاکستان میں طاقت کے تین ستون یعنی سیاستدان،مذہبی جماعتیں اور فوج ہیں۔ان میں فوج کا کردار سب سے نمایاں اور مستقل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا اقتدار اکثر مواقع پر افواج پاکستان کے پاس رہا ہے ۔ اقتدار کے ان ادوار میں مارشل لا اور نام نہاد جمہوری دور بھی شامل ہیں۔پاکستان میں فوج کے نمایاں کردار کی کئی وجوہات ہیں جن میں ہند پاک تعلقات،مسئلہ کشمیر،افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اور امریکہ سے تعلقات وغیرہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
١؛جبتک کشمیر کا مسئلہ موجود ہے ایک حملہ آور فوج کی موجودگی ضروری ہے۔
٢؛افغانستان کے ساتھ جبتک ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل نہیں ہوتا فوج کی ضرورت ہے اور فوج کو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
٣؛ ملک سے باہر دنیا کی مختلف افواج سے رابطے
امریکہ کے پاکستانی فوج سے براہ راست رابطے ہیں ۔امریکہ بظاہرجمہوریت کا ڈھونڈورا پیٹتا ہے لیکن اس نے پاکستان میں فوجی حکومتوں کی جمہوری حکومتوں سے بڑھ کر حمایت کی ہے۔ امریکہ نے فوج کے زریعے سایسی اور مذہبی گروہوں کو کنٹرول کیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت کو روکنا ہے تو امریکہ اور پاکستانی فوج کے درمیان رابطوں کو کم کرنا ضروری ہے۔امریکی اور پاکستانی فوج کے درمیان پاکستانی سیاسی نظام میں تبدیلی پر مشورے ہوتے ہیں اور یہیں سے فیصلے بھی صادر کئے جاتے ہیں.ایک ایسی صورت حال میں جب پاکستانی فوج سیاسی،اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں سمیت ہر اہم شعبے میں موثر ہے تو مغربی طاقتیں بھی فوج پر سرمایہ گزاری کو اپنے مفاد میں سمجھتی ہیں۔.پاکستان کی فوج اس وقت بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنا من پسند کردار ادا کررہی اور اس ھدف تک پہنچنے کے لئے اس نے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی روشوں سے نواز شریف حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھا ہوا ہے .یوں بھی خطے کی صورت حال ایسی ہے جس میں کوئی سول حکومت کوئی بڑا قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا،طالبان کی تازہ صورت حال،ملک مین جاری فوجی آپریشن اسکے علاوہ ملک کے اقتصادی مسائل بالخصوص توانائی کا بحران ایسے پیچیدہ مسائل ہیں کہ فوج کی مدد اور حمایت کے بغیر نواز حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔اس صورت حال نے پاکستانی فوج کو پہلے سے بڑھ کر اپناکردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے جس سے پاکستانی فوج مکمل استفادہ کررہی ہے۔
یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ فوج پاکستان کی تشکیل کے بعد نصف سے زیادہ مدت تک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملکی امور چلاتی رہی ہے۔ قیام پاکستان کی پہلی دہائی کے بعد فوج ایک قوت کے طور پر قومی سیاست میں اقتدار کے پیچھے طاقت بن گئی اور جلد ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا، پاکستان کی فوج سیاسی حکومت پر قبضہ کیلئے بار بار مداخلت اور مارشل لاء نافذ کراتی رہی۔ ایوب خان، یحییٰ خان کے بعد ضیاء الحق اور پھر پرویز مشرف بھی طویل مدت تک حکمراں رہے۔ اگرچہ کسی جمہوری ملک میں فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہوتا مگر کمزور سیاسی نظام نے فوج کو سیاسی کردار کی اجازت دی حتیٰ کہ سول دور میں بھی فوج کردار ادا کرتی رہی۔ تاہم جنرل پرویز مشرف کی اگست 2008 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے پاکستان آرمی جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں ظاہری سیاست سے دور رہی جس سے اس کی ساکھ بڑھی اور جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ یقین ہو چکا تھا کہ اب کی بار فوج ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھے گی اور جنرل راحیل شریف سیاست میں عدم مداخلت کی جنرل کیانی کی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لئے کہ اس بار حکومت نے شعوری یا لاشعوری طور پر فوج کے سربراہ سے اس بحران کو حل کرانے میں مدد مانگی اوراس سے کہا کہ سہولت کار کا کردار ادا کرے ۔ ایسے میں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کے سیاسی رہنماوں میں ایسی کوئی قدآور شخصیت نہیں ہے جس کی بات سب ماننے کیلئے تیار ہوں اگر اس سوال کا جواب نہیں میں سامنے آتا ہے تو اس ملک کے سیاستدانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئیے کہ آخر خرابی کہاں ہے؟ اس لئے کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس موضوع پر کہ سیاست میں فوج کا کردار نہیں ہونا چاہئیے ایک پیج پر ہیں اور وہ ملک میں سیاسی عمل کو جاری و ساری رکھنا چاہتی ہیں اور کسی بھی طور جمہوریت کو ری ڈیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جمہوریت کی گاڑی کو آگے کی سمت چلانے کی طاقت و توانائی نہیں رکھتیں جو کہ ایک ایسے ملک کیلئے جو ایٹمی طاقت ہے اور عالم اسلام میں اس کی ایک اچھی پوزیشن اور اہمیت ہے، لمحۂ فکریہ ہے۔اس لئے کہ ایک مستحکم اور مضبوط نظام کے لئے ایک معتدل معاشرے کے قیام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف اس وقت امریکہ کے دورے پر انکے اس دورے کو پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جو خود اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ بھی ایک منتخب وزیراعظم سے زیادہ ایک فوجی جرنیل کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔