الوقت- فرانس کے شہر پیرس کے مختلف علاقوں میں فائرنگ ، ایک اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے دھماکے اور باتا کالان نامی علاقے میں ایک کنسرٹ ہال میں یرغمال بنائے جانے کے واقعے میں ایک سو ساٹھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق باتاکالان کسنرٹ ہال میں چند دہشت گرد داخل ہوئے جنہوں نے سیاہ لباس پہن رکھے تھے اور دس منٹ تک چیختے چلاتے اور فائرنگ کرتے رہے جس کے نتیجے میں سو افراد ہلاک ہوگئے۔
خبروں میں کہا جارہا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش نے اپنے ٹوئٹ پیج پر "پیرس آگ میں" جیسی عبارت لکھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ، اس گروہ نے پیرس کے خونی واقعات کے ذمہ داری قبول کی ہے۔
دنیا کے بیشتر ملکوں اور عالمی رہنماؤں نے پیرس میں پیش آنے والے دہشت گردانہ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسل اینجلا مرکل ، روس کے صدر ولادی میر پوتن، اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے پیرس دہشت گردانہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مرنے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
مغرب نےجو بیج بویا تھا اسے ایک دن انہیں ضرور کاٹنا تھا ۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہناتھا کہ مغربی ممالک میں دہشتگردی میں اس وقت شدت ائے گی جب شام اور عراق مین پھیلے یہ دہشتگرد اپنے اپنے ممالک کو لوٹیں گے تاہم ایسا لگتا ہے کہ قبل از وقت یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے البتہ بعض اسے فلم کا صرف ٹریلر قرار دے رہے ہیں۔ فرانس میں بدترین دہشت گردانہ حملوں پر فرانسیسی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پیرس شہر کے مختلف علاقوں میں بیک وقت سات دہشت گردانہ حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
فرانسییسی ذرائع ابلاغ نے ان دہشت گردانہ حملوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک سو ساٹھ بتائی ہے جن میں سے ایک سو سے زائد افراد بٹاکلن کنسرٹ ہال میں مارے گئے جبکہ زخمیوں میں سے اسی افراد کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔ پورا فرانس ان دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے صدمے سے دوچار ہے اور ہفتے کے روز پیرس کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں چھٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ایفل ٹاور کی روشنیاں ان دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے سوگ میں گل کر دی گئیں۔
ان دہشت گردانہ حملوں پر پہلا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس ملک کی سرحدیں بند کر دی ہیں تاکہ بقول ان کے دہشت گردوں کو ملک سے فرار ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب دہشت گرد گروہ داعش نے سوشل میڈیا پر اس دہشت گردانہ واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ حملے فرانس کا نائن الیون ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ فرانس میں جمعہ کی رات ہونے والے دہشت گردانہ حملے، دہشت گردی کے دیگر اقدامات کا تسلسل قرار دیے جا سکتے ہیں کہ جو اس ملک میں خصوصا رواں سال کے آغاز سے انجام پائے ہیں۔ اس کے باوجود حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا ان کی وسعت اور مرنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے پیرس میں جنوری دو ہزار پندرہ میں ہونے والے چارلی ایبڈو میگزین کے دفتر اور یہودیوں کے ایک شاپنگ مال پر ہونے والے حملوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نہ صرف فرانس میں بلکہ یورپ کی سطح پر سیکورٹی اقدامات کے عمل پر یقینی طور پر اثرات مرتب کریں گے اور بنیادی طور پر سیکورٹی کے موجودہ اقدامات اور انتظامات میں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
اس بات کے پیش نظر کہ داعش نے ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس گروہ نے فرانس میں کیوں دوبارہ دہشت گردانہ حملے کیے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ داعش کے دہشت گرد اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے داعش کے خلاف اتحاد میں فرانس کی شمولیت اور اس گروہ کے ٹھکانوں پر فرانس کے جنگی طیاروں کے ہوائی حملوں کے جواب میں انتقامی کارروائی کرتے ہوئے یہ حملے کیے ہیں۔
ان حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرانس اس وقت مشرق وسطی خاص طور پر شام میں اپنے گزشتہ اقدامات کی فصل کاٹ رہا ہے۔ درحقیقت یورپی یونین کے دو اہم ملکوں کی حیثیت سے فرانس اور برطانیہ سمیت یورپی ملکوں نے اپنے عرب اتحادیوں اور امریکہ کے ساتھ مل کر شام میں دہشت گرد گروہ داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کو وجود میں لانے اور انھیں مضبوط بنانے میں اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا اور اس وقت ان کے اس اقدام کے نتائج یورپ کے میدان میں دو اہم صورتوں میں نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں لیکن اس اقدام کا ایک اور نتیجہ یورپی تکفیری دہشت گردوں کی اپنے ملکوں کو واپسی کے بعد یورپ میں دہشت گردی میں اضافہ ہے۔
یورپی خاص طور پر فرانسیسی یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور انھیں پھیلانے میں ان کی بے دریغ مدد و حمایت کے نتائج ایک دن خود ان کو لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس وقت فرانس جیسے ممالک کہ جو ایک دن داعش کو وجود میں لانے اور اسے مضبوط بنانے کا باعث بنے تھے، اب داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
یورپی حکومتیں اب اس نتیجے پر پہنچ گئی ہیں کہ داعش کے اقدامات پر ماضی کی طرح کمزور موقف اختیار کرنے کے باعث ان کے حملوں کا دائرہ یورپ کے اندر تک پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ فرانس کا اتحادی یعنی امریکہ داعش کے خلاف اتحاد میں حتی اس وقت بھی داعش کے خلاف موثر کارروائی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ شام میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات روس کو فراہم نہیں کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مغرب، مشرق وسطی میں اپنے ہاتھوں سے بوئی دہشت گردی کی فصل کو یورپ میں کاٹ رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یورپی یونین فرانس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر اعلی سطحی اجلاس منعقد کرے گی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے اقدامات کرے گی۔
لیکن ماضی کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے چونکہ دہشت گردانہ حملے کرنے کے وقت اور مقام کا انتخاب دہشت گردوں کے اختیار میں ہے لہذا متعدد سیکورٹی اقدامات کرنے کے باوجود ان ملکوں کی پولیس اور سیکورٹی ادارے خصوصا فرانس ان حملوں کو روکنے کے سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں اور یہ سلسلہ کئی دوسرے مغربی ممالک میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ فرانس کا حالیہ واقعہ پہلے مرحلے میں تو دہشتگردی کے خلاف عوامی نفرت میں شدت کا باعث بنے گا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ صیہونی میڈیا اسکو اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے یا دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خلاف۔