الوقت- امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جس قابض اور غاصب حکومت کو ناسور اور کینسر سے تشبیہ دی تھی آج یہ ناسور نہ صرف امت مسلمہ کے لئے بلکہ تمام حریت پسندوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے ۔اس کے آئے روز کے منفی اقدامات خطے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔اس غاصب حکومت کو بچانے اور خطے میں اسکو سیاسی تنہائی سے بچانے کے لئے امریکہ اور برطانیہ جس انداز سے سرگرم عمل ہیں اسکا نتیجہ شام،عراق ،لبنان اور یمن میں باسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اسرائیل کا یوں تو ہراقدام قابل مذمت اور قابل گرفت ہے لیکن صیہونی کالونیوں کی تعمیر پر تو اقوام متحدہ بھی ناخوش ہے لیکن اسکو رکوانے کے لئے صرف زبانی جمح خرچ ہورہا ہے دوسری طرفصیہونی حکومت نے مختلف فلسطینی علاقوں میں اپنے فوجی اقدامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔ صیہونی فوجی نے مغربی کنارے میں اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے اور انتفاضۂ قدس پر قابو پانے کے لئے فلسطینی علاقوں میں فوجی ساز و سامان میں اضافہ کرنے کے علاوہ مغربی کنارے میں مزید فوجی تعینات کر دیئے ہیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحار و نوت نے اس سلسلے میں پیر کے دن لکھا کہ اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں ریزرو فوجیوں کے چار بٹالین تعینات کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے رویئے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت فلسطینی سرزمین کے مختلف علاقوں پر قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل پامالی کے لئے موقع کی تلاش میں ہے۔ صیہونی حکام مغربی کنارے پر اپنا قبضہ جاری رکھنے اور اس پر مزید تسلط حاصل کرنے پر ایسی حالت میں تاکید کر رہے ہیں کہ جب یہ خطہ انیس سو سڑسٹھ سے عملی طور پر صیہونی حکومت کے قبضے میں ہے۔
مغربی کنارے پر ایسی حالت میں صیہونی حکومت کا قبضہ جاری ہے کہ جب فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں منجملہ دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس میں مقبوضہ علاقوں سے صیہونی حکومت کی پسپائی پر تاکید کی گئی ہے۔ فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ اور تشدد آمیز اقدامات کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
اکتوبر کے مہینے سے غاصب صیہونیوں کے خلاف فلسطینی عوام کے احتجاج میں شدت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں اور صیہونی حکومت کو فلسطینی عوام کے احتجاجات اور اعتراضات میں پھیلاؤ کے بعد مغربی کنارے میں اپنی ریزرو فوج کے متعدد بٹالین تعینات کئے ۔ یہ ایسی حالت میں تھا کہ جب اسرائیلی فوج کا گمان تھا کہ وہ اکتوبر سے شروع ہونے والے فلسطینی انتفاضہ پر آسانی کے ساتھ قابو پا سکتی ہے۔
دریں اثناء صیہونی حکومت کے فوجی اقدامات میں آنے والی شدت کا دائرہ مغربی کنارے تک محدود نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی علاقوں خصوصا غزہ پٹی کے علاقے پر بارہا حملے کر کے اس علاقے میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ غزہ پٹی پر سنہ دو ہزار چودہ میں صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد مصر کی ثالثی میں صیہونی حکومت اور فلسطین کے جہادی گروہوں کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے جانے کے بعد اسرائیل غزہ پٹی پر ہر طرح کے حملے سے اجتناب کرنے کا پابند ہے۔ لیکن یہ حکومت مختلف بہانوں کے ساتھ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔
رائے عامہ نے صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے اس غاصب حکومت کی حمایت کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ دونوں ممالک باہمی تعلقات میں توسیع کے بھی درپے ہیں۔ اسی تناظر میں صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی حکام غاصب صیہونی حکومت کی فوجی امداد میں اضافے کے طریقوں کا جائزہ لئے جانے کے بارے میں مشاورت کر رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت اس غاصب حکومت کے لئے گرین سگنل کے مترادف ہے۔ اس حکومت نے امریکی حمایتوں کی وجہ سے اپنے تشدد آمیز اور توسیع پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔
صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت کی وجہ سے امریکہ بھی اس غاصب حکومت کے مظالم میں برابر کا شریک بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے رائے عامہ میں دنیا کے مختلف علاقوں میں اقوام پر مظالم ڈھانے والے امریکی حکام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی رائے عامہ بھی امریکہ کے مفادات کا تعلق صیہونی حکومت کے ساتھ جوڑنے اور امریکی شہریوں کے ٹیکسوں سے اس غاصب حکومت کی حمایت میں بے تحاشا اخراجات برداشت کرنے پر مبنی امریکی حکام کے اقدامات پر معترض ہے۔
امریکہ کے مختلف شہروں میں حالیہ مہینوں خصوصا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے موقع پر صیہونیت مخالف مظاہروں میں شدت پیدا ہونے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکی رائے عامہ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کا ساتھ دینے سے شدید نفرت کرتی ہے۔ بہرحال قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک یوں تو جمہوریت اور انسانی حقوق کا بہت زیادہ واویلا کرتے ہین لیکن فلسطیں پر آکر ان کو چپ لگ جاتی ہے۔اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ چاہے جو کـچھ کرتا رہے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی دوسری طرف اگر امریکہ اور اسرائیل مخالف کسی ملک میں ایک عام کتے بلی پر بھی کوئی مشکل آجائے تو یہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن فلسطین کے مظلوں کو ایک معمولی جانور جیسی اہمیت دینے پر تیار نہیں۔