الوقت- روس نے شام میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے جو انتہائی قدم اٹھایا ہے اس نے علاقائی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔علاقائی سیاست میں آنے والی اس تبدیلی نے خطے میں سعودی عرب کو ایک مشکل سے دوچار کردیا ہے۔روس اور سعودی عرب حالیہ تناظر میں ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے ہیں۔چند دن پہلےشام کے مسئلے پر روس اور سعودی عرب کے اختلافات کے بعد امدادی اشیا کے حامل ایک روسی طیارے کی یمن کے صنعاء ایئر پورٹ پر لینڈنگ اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ روس اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔
مغربی ایشیا بالخصوص شام اور یمن کے بحرانوں نے علاقائی اور بین الاقوامی حوالے سے خطے اور عالمی طاقتوں کے درمیان باقاعدہ تقسیم کو نمایاں کر دیا ہے ۔عالمی سطح پر یہ تقسیم امریکہ کے زیر قیادت مغربی ممالک اور روس و چین کے درمیان شام اور یمن کے بحران کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
شام کے حالیہ بحران کے نتیجے میں اب تک دو لاکھ افراد ہلاک ، ہزاروں زخمی اور گیارہ ملین سے زیادہ آوارہ وطن ہو چکے ہیں۔ مغرب کی طرف سے دہشتگردوں کی حمایت کے نتیجے میں اس وقت نہ صرف شام بلکہ لبنان اور عراق کی ارضی سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔
دوسری طرف یمن کا بحران جو چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب کی یمن پر جارحیت سے شروع ہوا اس میں کم سے کم پانچ ہزار یمنی شہری جاں بحق اور پندرہ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد آوارہ وطن ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یمن کے ساحل پر آنے والے چاپالا نامی طوفان نے بھی چالیس ہزار افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسی طرح بیس لاکھ سے زائد یمنی شہریوں کو غذائی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجاریچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یمن میں غذائی اشیا کی قلت اور سلامتی کا مسئلہ روز بروز بدتر ہوتا جا رہا ہے اور یمن کے بائیس صوبوں میں سے دس میں غذائی قلت اور سلامتی کے حوالے سے کسی بھی وقت قحط کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق یمن میں بچوں کو غذائی قلت اور ناقص غذاؤں کی وجہ سے سخت مشکلات در پیش ہیں اور یمن اس حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یمن میں ہر پانچ افراد میں سے ایک غذائی سلامتی کے بحران سے دوچار ہے۔
ان حالات میں روس نے جو ایک بڑی عالمی طاقت ہے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق رکھتی ہے، سعودی عرب کی جنگ پسندانہ اور افراتفری کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے شام میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر براہ راست حملے کا آغاز کیا ہے، ماسکو کے ان اقدامات اور پالیسی کی وجہ سے نہ صرف ریاض اور ماسکو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی ہے بلکہ روس اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان باقاعدہ لفظی جنگ بھی ہوئی ہے ۔
اس کشیدہ صورتحال میں جب کہ سعودی عرب نے یمن کا فضائی ، زمینی اور بحری محاصرہ کر رکھا ہے ۔ روس نے تمام مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے امدادی اشیاء کے پہلے طیارے کو صنعاء ایئرپورٹ پر اتارا ہے ۔
روسی طیارے کی صنعاء ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے نہ صرف یہ کہ ماسکو ریاض تعلقات کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ اقدام ریاض کی کمزوری کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔ ریاض کی طرف سے روسی جہاز کے خلاف کسی قسم کا اقدام نہ کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سعودی عرب صرف کمزور ممالک کے خلاف اقدامات کرتا ہے اور مغرب کی حمایت کے بغیر طاقتور ملکوں کے خلاف کچھ کہنے اور کرنے کے لئۓ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کے مقابلے میں امریکہ کیا کرتا ہے اور سعودی عرب مستقبل میں مشرق وسطی کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں کیا تبدیلی لاتا ہے؟