الوقت کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر اور آرمی چیف جوزف ڈانفورڈ نے سینیٹ کے اجلاس میں داعش کے خلاف براہ راست زمینی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ جوزف ڈانفورڈ نے امریکہ کے اعلی ترین فوجی عہدیدار کی حیثیت سے کہا کہ اگر داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فوجیوں کی شرکت سے اس گروہ کی شکست کا امکان بڑھ جائے تو وہ عراقی فوج کے شانہ بشانہ امریکی فوجیوں کے لڑنے کی تجویز کا جائزہ لیں گے۔
عراق یا شام میں داعش کے خلاف زمینی جنگ میں امریکی کی ممکنہ شرکت کی بحث اس وقت چھڑی کہ جب شامی فوج نے اپنے علاقائی اتحادیوں کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ عراقی حکومت کے بعض عہدیداروں نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ شام میں روس نے داعش کے خلاف جس طرح شامی فوج کا ساتھ دیا ہے اسی طرح وہ عراق میں بھی داعش کے خلاف عراقی فوج کا ساتھ دے گا اور داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں کرے گا۔
اس وقت ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس بات کے پیش نظر کہ مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں کہیں پیچھے نہ رہ جانے وہ روس، عراق، ایران اور شام کے تعاون کے مقابل، ایک بار پھر علاقے میں اپنی زمینی فوج بھیجنا چاہتا ہے۔
عراق اور شام دونوں ملکوں میں حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف عوامی رضاکار فورس تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عراقی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے ہاتھوں تکریت شہر کی آزادی اور شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی حلب کی جانب پیش قدمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہ عراقی اور شامی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔