الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے سعودی وزیرخارجہ کے غیر سفارتی بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔
وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کو جن کا ملک علاقائی بحران کے حوالے سے فوجی ،سیکورٹی اور انتہا پسندی کے راستے پر گامزن ہے اور جس نے گذشتہ سات ماہ سے یمن کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہوا ہے،خطے میں ایران کے کردار کے بارے میں کسی طرح کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔
مرضیہ افخم کا کہنا ہے ایک ایسے وقت جب عالمی برادری علاقے میں ایران کے تعمیری کردار کو درک کرتے ہوئے مختلف مسائل میں ایران کی شرکت اور اس کے کردار میں اضافے کی خواہاں ہے، بدقسمتی سے سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جو صرف اپنی کامیابی کو اہمیت دیتا ہے اور دوسروں کے کردار کو ختم کرنے کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر تعمیری اور تباہ کن رویہ ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان کا مزید کہنا تھا اس بات کی امید تھی کہ ایٹمی مذاکرات کی کامیابی اور خطے کی مشکلات اور بحرانوں کے خاتمے کے لئے وسیع اور تعمیری گفتگو پر عالمی برادری کی توجہ اور آمادگی اس بات کا باعث بنے گی کہ سعودی عرب اپنی غیر منطقی اور دوسروں کے اشاروں پر بنائی جانے والی پالیسیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے گا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو علاقے کے تعمیری حالات اورموجودہ روش کو سمجھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ پوری دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کو اپنی مرضی سے چلانے کے خواہاں ہیں۔
مرضیہ افخم نے شام کے مستقبل کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسرے ملک کی تقدیر کے حوالے سے غیرسفارتی اور غیر منطقی الفاظ کا استعمال سیاسی جمود کی علامت ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ یہی پالیسیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ علاقے کے مختلف مملک بالخصوص شام اور یمن منظم انتہا پسندی کا شکار ہوئے ہیں۔
مرضیہ افخم نے جرمنی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران سے متعلق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے ناروا بیانات کے جواب میں مزید کہاکہ عالمی برادری استحکام پر منتج ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے تعمیری کردار کا ادراک کرتے ہوئے ایران کی شرکت اور اس کی جانب سے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کئے جانے کی خواہاں ہے اور سعودی عرب ہی وہ واحد ملک ہے جو خطے کی صورتحال کو ہار جیت کی نظر سے دیکھتا ہے اور دوسرے ممالک کے کردار کے خاتمے پر اصرار کر رہا ہے۔
مرضیہ افخم نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اس غیر تعمیری اور تباہ کن رویئے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے تکراری اور توہم پرستانہ بیانات میں شام میں ایران کے کردار کو اس ملک کے بحران کے حل میں ایران کی شرکت کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کو "شام میں عرب سرزمینوں کے غاصب سے تعبیر کیا" سعودی عرب کے حکام کے یہ غیر منطقی بیانات اور مواقف کے ، کہ جو درحقیقت حقائق سے دور بھاگنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے کے مترادف ہیں، خاص علل و اسباب اور محرکات ہیں۔جن میں یمن اور بحرین کے داخلی امور میں مداخلت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب کا الگ تھلگ ہوجانا بھی شامل ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ایٹمی مذاکرات نیز مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے تعمیری اور ہمہ گیر مذاکرات کی روش کا بین الاقوامی سطح پر خیر مقدم کیا جانا علاقائی اور عالمی حالات میں ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے لیکن سعودی عرب سمیت بعض ممالک ان مذاکرات کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے حکام کئی مہینوں سے ایران کے بارے میں غیر تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس سلسلے کو جاری رکھنے پر ان کے اصرار سے ان کے ملک کے اجارہ دارانہ اور غیر منطقی رویئے کی عکاسی ہوتی ہے۔
اس رویئے کا خاص کر ایک ہمسایہ ملک کی جانب سے جاری رہنا اس بات کا غماز ہے کہ اس ملک کے حکام کو خطے کے حقائق اور تعمیری اقدامات کا صحیح اور حقیقت پسندانہ ادراک نہیں ہےاور ایسا نظر آتا ہے کہ سعودی عرب کے ناتجربہ کار حکام کو اس سلسلے میں بنیادی مشکل کا سامنا ہے۔اور وہ اپنے کردار اور مقام کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
شاید سعودی عرب کچھ عرصے تک کے لئے چند ملین بیرل زیادہ تیل نکال کر اور اسے منڈی میں فروخت کر کے بزعم خویش ترپ کا پتا اپنے ہاتھ میں لے لے لیکن حتی اس مفروضے کے ساتھ بھی سعودی حکام اس بات سے غافل ہیں کہ اس سیاسی کھیل میں حتمی ہار ان کے ہی مقدر میں ہوگی جیساکہ آج بھی ان کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے جو کہ پیٹروڈالر ان کے ہاتھ سے نکل جانے کی ایک علامت ہے۔
شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں عادل الجبیر کے بیانات بھی اسی سیاسی پسماندگی کا نتیجہ ہیں اور وہ سفارتی آداب کے منافی اور نازیبا الفاظ استعمال کر کے دوسرے ممالک کی اقوام کی تقدیر کے سلسلے میں اپنی غیر تعمیری مداخلت کو جائز اور اپنے کردار کو مثبت ظاہر کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
یہ مواقف کسی بھی ملک کی طاقت اور سیاسی طور پر اس کے معتبر ہونے کی علامت نہیں ہیں۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بقول یہ مواقف سیاسی جمود کے مترادف ہیں اور افسوس کہ اسی زاویہ نگاہ کی وجہ سے شام اور یمن سمیت خطے کے چند ممالک اور اقوام کو سعودی عرب اور دوسرے ممالک کی جانب سے منظم انتہا پسندی اور جنگ کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کے حکام اس وقت ان مشکلات سے دوچار ہیں جو یمن میں ان کے اپنے مظالم کے نتیجے میں ان کے لئے پیدا ہوئی ہیں
اس کے علاوہ رواں سال حج کے موقع پر سعودی حکام کی بدانتظامی کے باعث سانحہ منی پیش آیا جس میں سات ہزار سے زیادہ حجاج کرام جاں بحق ہوگئے جس کی وجہ سے سعودی حکام کو وسیع پیمانے پر تنقیدوں اور اعتراضات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سعودی عرب ، کہ جس نے یمن کے بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں عام شہریوں کا قتل عام کیا ہے، ایران کے علاقائی کردار کے بارے میں بات کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔آل سعود کی بوکھلائی ہوئی وزارت خارجہ اس وقت غلطیوں پہ غلطیاں کررہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس بوکھلاہٹ میں وہ کوئی ایسا قدم بھی اٹھا سکتی ہے جواس ڈکٹیٹر حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔