الوقت۔ حادثہ قندوز کی طرح شمالی افغانستان بالخصوص صوبہ فریاب کے مرکزی شہر "میمنہ" میں طالبان کے حملے ابھی بھِی جاری ہیں۔ صوبہ فاریاب، شمالی افغانستان کے ان صوبوں میں سے ہے جو تین، چار ماہ سے طالبان عسکریت پسندوں اور داعش کے حملوں کی زد میں ہے۔ صوبہ فاریاب کے سربراہ عبدالستار بارز کے مطابق، دو روز قبل طالبان نے صوبہ فاریاب پر قندوز کی طرح کے سنگین حملے کا آغاز کیا۔ طالبان نے ایک ہی وقت میں صوبہ فاریاب کے اکھٹے ۷ ضلعوں غور ماچ، قیصار، المار، تحاب شیریں، خواجہ سبز پوش، اور پشتونکوٹ کو مورد حملہ قرار دیا، ان کی کوشش تھی کہ ان علاقوں کی سکیورٹی فورسز کو مشغول کر کے، اس صوبے کے مرکزی شہرمیمنہ پر قبضہ کر لیں، لیکن سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عوامی فورس نے شدت سے اپنے شہر کا دفاع کیا۔ صوبہ فاریاب کے سابق رکن اور افغانستان سینیٹ کے سیکرٹری "سید فرخ شاہ جناب" کے مطابق، میمنہ شہر طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے خطرے میں ہے اور "گرزیوان" کی صوبائی حکومت پر قبضے نے ان خطرات کو دوچنداں کر دیا ہے۔ گرزیوان اور خواجہ موسٰی (کہ جو ایک غیر رسمی حکومت ہے)، کے سقوط کے بعد، صوبہ فاریاب کے مرکزی شہر میمنہ کے نزدیک طالبان عسکریت پسندوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے، جو وہاں کے شہریوں کے لئے شدید نگرانی کا باعث ہے۔ دراصل، طالبان عسکریت پسندوں کے گرزیوان اور خواجہ موسٰی پر حملے، میمنہ شہر کے حصول کے لئے ہیں اور تقریباً ایک ہفتہ پہلے طالبان عسکریت پسندوں نے انہی علاقوں سے شہر پر زبردست حملے کئے، تاہم کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
گذشتہ ہفتے میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے عملہ نے فریاب کے مرکزی شہر، میمنہ کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے۔ فاریاب کے قائم مقام گورنر "عبدالستار بارز" نے اعلان کیا ہے کہ، اقوام متحدہ کے عملے کی میمنہ شہر کو چھوڑنے کی وجہ معلوم نہیں ہے، تاہم صوبہ فاریاب کے حکام نے اقوام متحدہ کے عملہ کے شہر کو ترک کرنے کی رپورٹ افغان قومی سلامتی کونسل کو دی ہے۔ اقوام متحدہ کے عملے نے ایسے وقت میں شہر کو ترک کیا ہے کہ جب شمالی افغانستان کے صوبوں میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال فاریاب کی صوبائی حکومت، طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے شدید خطرے میں ہے، یہ خطرہ عوام اور جہادی کمانڈورں کی پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ اب تک صوبہ فریاب کا ۷۰ فیصد علاقہ طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں آ گیا ہے، لیکن فی الحال صوبائی حکومتوں کے مرکز پر ان کا قبضہ نہیں ہوا۔ صرف گرزیوان اور خواجہ موسٰی جو سابقہ حکومتوں میں مستقل صوبائی حکومتیں تھیں، طالبان کے زیر قبضہ آئی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں طالبان عسکریت پسنوں کے بارے میں دقیق اعداد و شمار اختیار میں نہیں ہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق اس صوبے میں طالبان عسکریت پسندوں کی تعداد ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ تک ہے، البتہ طالبان عسکریت پسندوں کے بارے میں یہ اعداد و شمار مستقل نہیں، بعض اوقات طالبان عسکریت پسند دوسرے صوبوں پر حملات کے لئے صوبہ فریاب سے خارج ہو جاتے ہیں۔
ایسی شرائط میں تشویش کو برطرف کرنے اور طالبان کے دوبارہ حملوں سے دفاع کے لئے، جھادی کمانڈرعوام کے ساتھ مل کے اسلحے کے ساتھ طالبان عسکریت پسندوں سے مقابلے کے لئے تیار ہیں۔ اس وقت لوگوں کی سب سے بڑی تشویش، ان مسلح افراد کے بارے میں بھی ہے جو اس اسلحے سے ناجائزفائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ صوبہ فریاب کی اکثریت مکمل طور پرمسلح ہے اور طالبان سے مقابلے کے لئے آمادہ ہے، اور ان میں سے اکثر یا تو جہادی گروہ "جنبش" کے کمانڈر کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا جہادی گروہ " جمیعت" کے زیر کمانڈ ہیں، لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی گروہ سے رابطے میں نہیں ہیں، اورکچھ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس کوشش میں ہیں کہ لوگوں کے اموال کو لوٹا جائے۔ ایک اور بڑا مسئلہ فاریاب کے لوگوں کی غذائی ضرویات کو پورا کرنا اور انہیں مسلح کرنے کا ہے، لیکن ابھی تک کابل حکومت نے واضح نہیں کیا کہ اپنی مدد آپ کے تحت دشمن کے مقابلے کے لِے آنے والے لوگوں کی حمایت کریگی یا نہیں۔ اگر حکومت ان کی حمایت نہیں کرتی، اور دوسری جانب طالبان صوبہ فاریاب اور شہر میمنہ پر قبضہ کر لیتے ہیں تو لوگوں کو بہت بڑا نقصان پہنچے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صوبہ فاریاب میں داعش کے اثر و رسوخ کے احتمال نے پریشانی کو دوبرابر کر دیا ہے۔ اس صوبے میں داعش کے وجود اورطالبان کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ کے احتمال نے عدم تحفظ اور تشدد کو دوچنداں کر دیا ہے، حالانکہ ابھی تک صوبہ فاریاب میں دہشتگرد گروہ داعش کی جانب سے کسی قسم کی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن اس گروہ میں افراد کی بھرتی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اب تک داعش نے طالبان عسکریت پسندوں میں سے بھرتیاں کی ہیں اور اگر امن کے حوالے سے حالات یونہی مخدوش رہیں تو عام لوگوں میں سے بھی بھرتی کا احتمال ہے۔ ان تمام مطالب کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ فاریاب کی سلامتی مستقبل میں تشویشناک ہے۔ ماضی سے لے کر اب تک صوبہ فاریاب میں جنگی پالیسیاں ہمیشہ مدافعانہ تھیں اور جیسا کہ ماضی میں بھی ان علاقوں میں بدامنی کی وجوہات پرتوجہ نہیں دی گئی اورنیز نہ ہی افغانستان حکومت بھی ماضی سے لے کر اب تک طالبان سے مقابلے اور انہیں شکست دینے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔