الوقت-صیہونی داعشی اھداف کےبارے میں تحقیقات سے اس بات کی تائيد ہوتی ہے کہ صیہونی حکومت علاقے میں تکفیری گروہوں کی حمایت کرکے متعدد مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے جملہ اھداف میں داخلی جنگيں شروع کرواکر بدامنی پھیلانا اور اسلامی ملکوں کو ایک دوسرےکے سامنے صف آرا کرنا ہے۔ فلسطینیون کے درمیان تفرقہ اندازی تا کہ وہ اسرائيل اور اپنی سرزمین پراس کے قبضے کو بھلا دیں۔اس سازش سے صیہونی حکومت کا ایک اور ھدف اسلامی سرزمینوں کی تقسیم کے حالات بنانا ہے۔ ان امور کے پیش نظر ایک احتمال جو داعش اور صیہونی حکومت کے مشترکہ تعاون کے تجزیوں میں دیا جاتا ہے یہ ہے کہ یہ دونوں، علاقے میں مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے درپئے ہیں۔ اسی وجہ سے صیہونی حکومت اور تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے درمیان اسٹراٹیجیک تعلقات قائم ہوگئے ہیں جن کا مقصد قریبی تعاون کرنا ہے۔ اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ صیہونی حکومت اور تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا اتحاد برسہا برس قائم رہ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں متعدد احتمالات اور فرضیے پیش کئے گئے ہیں۔ ایک مفروضہ اس سناریو پر مبنی ہے کہ داعش پیش قدمی کرکے بالخصوص شام میں پیش قدمی کرکے بشار اسد کی قانونی حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس مفروضے کے مطابق داعش اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے اور مقبوضہ فلسطین کے جولان علاقے سے اپنی سرحدیں ملاکر صیہونی حکومت کا ہمسایہ بننا چاہتا ہے۔ داعش دہشتگرد گروہ فی الحال یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ فی الحال قریبی دشمن شیعہ مسلمانون اور داعش دشمن اھل سنت کا مقابلہ کرنا ضروری ہے لہذاصیہونی حکومت کے ساتھ جنگ اور جھڑپوں کو ابھی ایجنڈے سے خارج کردیا جائےکیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو اسے اپنے آقا امریکہ کے شدید ھدفمند اور وسیع رد عمل نیز ترکی اور سعودی عرب کی حمایت کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے داعش دہشتگرد گروہ کو شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف دیگر محاذوں پر بھی امریکہ،ترکی اور سعودی عرب کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اس سناریو کے مطابق اس بات کا امکان پایاجاتا ہےکہ عراق اور شام کے کرد علاقوں کو ایک کرکے ایک ممکنہ نئے مرکز بحران کا اضافہ کیا جائے گا۔لھذا مجموعی طور سے اگر علاقے میں داعش کے اقدامات کو دیکھا جائے تو ان میں اس سناریو پر عمل درامد کی نشانیاں دکھائي دیتی ہیں جن کا ھدف علاقے کے ملکوں کا بٹوارہ کرنا اور نئے جغرافیا کو وجود میں لانا ہے۔ ادھر صیہونی حکومت بھی اس سناریو سے فائدہ اٹھا کر علاقے میں اپنی گوشہ نشینی ختم کرنا چاہتی ہے۔ بعض ثبوت و شواہد کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت اور داعش کے درمیان غیراعلانیہ ایک طرح کا اتحاد پایا جاتا ہے کیونکہ عالمی صیہونیت براہ راست طریقے سے میدان کارزار میں نہیں اترتی بلکہ مختلف گروہ تشکیل دے کر پس پردہ اور زیر نقاب ان کی حمایت کرتی ہے اور اس طرح اپنے اھداف تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح دہشتگرد تکفیری گروہوں کو صیہونیت پردہ کے پیچھے سے کنٹرول کررہی ہے اور انہیں صیہونی حکومت کی جانب سے اسلحہ جاتی مدد، مالی مدد اور انٹلجنس مدد ملتی رہتی ہے اس کے علاوہ صیہونی حکومت کے اسپتالوں تکفیری دہشتگردوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ جولان کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی حکومت دہشتگردوں کا علاج معالجہ کررہی ہے۔ صیہونی حکومت کے علاوہ،امریکہ، ترکی اور سعودی عرب مشترکہ مفادات کی وجہ سے ایک اتحاد میں شامل ہوچکے ہیں۔ صیہونی حکومت شام کےبحران کو طویل بناکر بشار اسد کی حکومت کو کمزور بنانا چاہتی ہے اور اسی غرض سے جبھۃ النصرۃ جیسے دہشتگرد گروہوں کی مدد کررہی ہے اور اسی ھدف کے تحت ترکی دہشتگردوں کو لاجیسٹک، انٹلیجنس اور فوجی مدد پہنچارہا ہے۔