الوقت-برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی میں فلسطین کے تحقیقاتی مرکز کے سربراہ پروفیسر ایلان بابی نے ایک تحقیقاتی مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے اسرائيل کے بارے میں دس غلط باتیں، انہوں نے اپنے اس مضمون سے یورپی ملکوں میں صیہونی حکومت کے جھوٹے پروپگينڈے کی قلعی کھول دی ہے۔انہوں نے اپے اس مضمون میں لکھا ہےکہ دس اافسانوی باتیں ہیں جو مغرب میں غلط طور پر رائج کردی گئي ہیں جن سے صیہونی حکومت غلط فائدہ اٹھا کر فلسطینی قوم کے خلاف ہر طرح کی مجرمانہ کاروائياں کرتی ہے اور ہرطرح کی باز پرس سے خود کو بچالیتی ہے۔
1: سرزمین فلسطین کا کسی قوم سے تعلق نہیں تھا اور اس سرزمین کو کسی بے وطن قوم کی تلاش تھی۔ یہ بات بے بنیاد ہے کیونکہ مورخین نے ثابت کردیا ہے کہ فلسطین ایک متمدن ملک تھا اور وہاں عثمانی سلطنت کے خلاف تحریک بھی چلی تھی۔ اگر صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ نہ کیا ہوتا تو یہ سرزمین بھی آج عراق و شام کی طرح ایک آزاد اور مستقل ملک کی حیثیت سے پہچانی جاتی۔
2: فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے یہودی مہاجرین پر دہشتگردانہ حملے کئے ہیں۔ یہ ایک نہایت بے بنیاد بات ہے کیونکہ سب سے پہلے آنے والے یہودی مہاجرین نے لکھا ہے کہ فلسطینیوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا رویہ اپنایا تھا اور انہوں نے فلسطینیوں سے ہی زراعت کے گر سیکھے تھے۔ یاد رہے فلسطینیوں کی مزاحمت اس وقت شروع ہوئي ہے جب سے صیہونیوں نے جارحانہ اور نسل پرستانہ رویہ اپنا نا شروع کیا۔
3: فلسطینیوں نے رضا کارانہ طور پر اپنی سرزمین ترک کی ہے اور صیہونیوں کے حوالےکردی ہے۔ یہ دعوی بھی بے بنیاد ہے۔ کیونکہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد انیس سو اڑتالیس میں صیہونیوں کی شروع کی ہوئي جنگ سے پہلے ہی ترک وطن پر مجبور کردی گئي تھی۔
4: اسرائيل انیس سو سڑسٹھ تک ایک جمہوری اور اعتدال پسند حکومت رہی ہے۔ یہ بھی تاریخی لحاظ سے ایک بے بنیاد دعوی ہے کیونکہ صیہونی حکومت نے اس دوران فلسطین میں فوجی حکومت قائم کرکے فلسطینی قوم کے خلاف نہایت ہی بھیانک ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ اس دوران صیہونی حکومت نے نہایت ہی بے رحمی سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس زمانے میں صیہونی حکومت نے مختلف ملکوں پرحملے بھی کئے اور ان کے علاقے بھی غصب کئے تھے۔
5: فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں دہشتگرد ہیں۔ یہ بھی ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ فلسطینی تنظیموں کی جدوجہد سامراجی سازش کے خلاف جدوجہد ہے۔
6: اسرائيل غزہ پٹی اور غرب اردن پر قبضہ کرنے پر مجبور تھا اور اس کےعلاوہ اس کے پاس کوئي چارہ نہیں تھا۔ یہ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اس کے جواب میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ صیہونی حکام کو اس بات کا بہت ہی زیادہ افسوس تھا کہ انہوں نے انیس سو اڑتالیس میں ہی کیوں پورے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا تھا، وہ اس بات کو سوچ سوچ کر کف افسوس ملا کرتے تھے یہانتک کہ انیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں انہیں موقع مل گيا اور انہوں نے غزہ اور غرب اردن پر قبضہ کرلیا۔
7: اسرائيل نے غزہ پٹی اور غرب اردن پر مثبت اھداف کےتحت قبضہ کیا تھا لیکن بعد میں فلسطینیوں کی شورشوں کی وجہ سے یہ علاقے فلسطینیوں کو دے دئے۔ صیہونیوں کے اس غلط اور جھوٹے دعوے کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ صیہونی حکومت نے شروع ہی سے پرامن طریقے سے اپنی جارحیت کو ختم کرنے کی کوششوں کو مسترد کردیا تھا اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو دہشتگرد قراردے کر انہیں بڑی بےرحمی سے کچلنا شروع کردیا تھا۔
8: اوسلو معاہدہ فلسطینی اور اسرائیلی فریقین کی مرضی سے حاصل ہوا ہے۔ واضح رہے انیس سو اسی تک فلسطینی سرزمیں فلسطین کو تقسیم کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن اس کے بعد ان پر ہرطرف سے دباؤڈالا جانے لگا اورسرزمین فلسطین میں سے ان کا حصہ پچاس فیصد سے گھٹ کر صرف پندرہ فیصد رہ گيا، اس کےعلاوہ فلسطینی پناہ گزینوں سے وطن واپسی کا حق بھی سلب کرلیا گيا۔ اوسلو معاہدہ پی ایل او پر پڑنے والے شدید دباؤ کا نتیجہ تھا جو اس پر ہرطرف سے ڈالے جارہے تھے۔
9: فلسطینیوں کی دوسری تحریک انتفاصہ وسیع پیمانے پر انجام دی جانے والی دہشتگردانہ کاروائياں تھیں اور ان کے ماسٹر مائينڈ یاسر عرفات تھے۔ صیہونی حکومت نے یہ جھوٹا پروپگینڈا کرکے فلسطینیوں کو دہشتگرد ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ صیہونی حکومت کے اس جھوٹے دعوے کا جواب یہ ہے کہ تحریک انتفاضہ فلسطینیوں کی برہمی کی علامت ہے۔ یہ ان کے غم و غصے کی علامت ہے۔ واضح رہے صیہونی حکومت نے جب فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کو کچل دیا تو فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف فدائي حملے شروع کردئے تھے کیونکہ فدائی حملے صیہونی جارحیت کو روکنے کےلئے فلسطینیوں کا آخری آپشن تھے۔
10: فلسطینی اسرائيلی تنازعہ کا حل نہایت آسان ہے۔ واضح رہے فلسطینی مسئلے کا حل نہایت ہی مشکل ہے کیونکہ صیہونی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں یہودی کالونیاں بنا کر اس مسئلے کے حل کی کوئي امید باقی نہیں رکھی ہے۔ صیہونی کالونیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو جو پندرہ فیصد زمین دی جارہی ہے اس میں سے بھی بیس فیصد کم ہوجائے گي۔ صیہونی حکومت پورے غرب اردن پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ قابل ذکرہے ایسے عالم میں جبکہ ساری دنیا کو ملت فلسطین کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے ان جھوٹے دعووں اور غلط پروپگينڈوں کے خلاف موقف اپنانا چاہیے اور صیہونی حکومت کے اس پروپـگينڈے کو بھی غلط قراردیناچاہیے کہ صیہونی حکومت پر تنقید دین یہود پر تنقید ہوگي۔