الوقت کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے چند روز قبل اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم کو اسرائیلخاص طور سے مسجد الاقصی کے بارے میں بیانات دینے پر ایک سخت پیغام بھیجا ہے۔
اردن کے بادشاہ نے چند روز قبل اس بات پر زور دیا تھا کہ مسجد الاقصی ایک مقدس مقام ہے اور یہ صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کا ملک اس کی زمانی و مکانی اعتبار سے تقسیم کا مخالف ہے۔ ان کے اس بیان پر صیہونی حکومت کے حکام نے سخت غصے اوربرہمی کا اظہار کیا۔
اسرائیل کے اس قسم کے رویے پر اردن کی پارلیمنٹ کے پینتالیس ارکان نے غاصب اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسجدالاقصی کی بےحرمتی کے خلاف احتجاج کے طور پر اسرائیل کے سفیر کو امان سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ مسجد الاقصی پر صیہونی حکومت کی جارحیت کا جاری رہنا نہ صرف بین الاقوامی اصول و قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ عرب ممالک کے ساتھ کیے گئے غاصب صیہونی حکومت کے وعدوں کے بھی خلاف ہے۔ انیس سو چورانوے میں غاصب اسرائیل اور اردن کے درمیان ہونے والے سمجھوتے میں یہ طے پایا تھا کہ صیہونی مسجد الاقصی میں عبادت نہیں کریں گے اور اردن کی حکومت اس مسجد کی باضابطہ متولی ہو گی۔
صیہونی حکومت کے خلاف اردن کے حکام کے بیانات اور موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے ان توہین آمیز اقدامات پر حتی وہ حکومتیں بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ جن کے غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں اور انھوں نے اس کے ساتھ سازباز معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔