آئي اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو گذشتہ روز ایران آئے ہیں جہاں انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سمیت دیگر اعلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے یوکیا آمانو کے دورہ تہران کے موقع پر دورہ تہران میں آمانو کے" خاص مشن "جیسے الفاظ استعمال کرکے اس دورے سے اپنے خبری اھداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسوشیٹیڈ پریس نے اسی سلسلے میں دعوی کیا ہے کہ اتوار کو تہران میں یوکیا آمانو کے مذاکرات کا مقصد ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کے انٹرویو لینے پر ایران کو راضی کرنا ہے۔ ایرانی ایٹمی سائنس دانوں سے انٹرویو کا مطالبہ نام نہاد پی ا یم ڈی دعووں کے تحت کیا گيا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم نے پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادے کے حق پر تاکید کرتے ہوئے چودہ جولائي دوہزار پندرہ کو پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ مذاکرات کرکے ایسا معاہدہ کیا ہے جسے جامع مشترکہ ایکشن پلان کہا جارہا ہے۔ یہ ایٹمی معاہدہ دو اہم مسئلوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایران کسی بھی صورت میں اپنے مسلمہ حقوق سے دستبردار نہیں ہوگا اور دوسرا مسئلہ جو اہم ہے یہ ہے کہ اس معاہدے سے باقی ماندہ مسائل بالخصوص آئي اے ای اے کے ممکنہ سوالات کا جواب دینے کا تازہ موقع فراہم ہوا ہے۔ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے میں نیز اس معاہدے کو منظوری دینے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں آئي اے ای اے کو معائنہ کار ادارے کی حیثیت سے خاص کام دیا گيا ہے۔ لھذا آئي اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے یوکیا آمانو سے جو توقعات ہیں وہ بڑی صریح اور شفاف ہیں۔ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے ویانا میں اپنی حالیہ نشست میں یوکیا آمانو کو اجازت دی ہے کہ وہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے اور اس معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کا عمل شروع کرسکتے ہیں۔ اب جبکہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ اور ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی شروع ہوچکی ہے یوکیا آمانو رواں برس کے آخری مہینے دسمبر کی پندرہ تاریخ تک تمام باقی ماندہ مسائل کے بارے میں اپنی حتمی رپورٹ بورڈ آف گورنرز کے سامنے پیش کریں گے۔آئي اے ای اے کے قوانین کے مطابق ایٹمی ایجنسی کا معائنہ کاری کی روشیں ایٹمی ایجنسی اور اسکے اراکین کے درمیان خفیہ امور میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ آئي اے ای اے کے آئين کے ساتویں قانون کی رو سے کسی بھی طرح کے صنعتی راز یا خفیہ معلومات جو رکن ملکوں سےحاصل ہوتے ہیں ان کا انکشاف نہیں کیا جاسکتا۔
یوکیا آمانو نے اپنے فرائض منصبی اور آئي اے ای اے کے قوانین کے باوجود ایران کے خفیہ رازوں کو برملا کیا اور ایران کے بارے میں مبہم رپورٹیں پیش کرکے ایران کے خلاف الزامات لگانے میں امریکہ کی مدد کی ہے۔ اسی وجہ سے ایران نے بارہا اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ایٹمی ایجنسی نے خفیہ دستاویزات کی حفاظت کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح سے نہیں نبھایا ہے۔ ایران نے اسی مسئلے کو لے کر آئي اے ای اے پر کڑی تنقید کی ہے۔ آج اتوار کو تہران میں یوکیا آمانو کی ملاقاتیں ایران اور آئي اے ای کے مدنظر اھداف کو آگے بڑھانے کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
نقشہ راہ معاہدہ جو ایران اور ایجنسی کے درمیاں منعقد ہوا ہے اس پر عمل درامد کے طریقہ ہائے کار ایرن اور آئي اے ای اے کے درمیان طے پائے ہیں۔ لھذا اس دائرے سےہٹ کر اگر کوئي بیان سامنے آتا ہے تو اسے ہم محض قیاس آرائي ہی کھ سکتے ہیں اور اسے ریفرینس کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ واضح سی بات ہے کہ اس تعاون کے نتائج کا اعلان مقررہ وقت پر کیا جائے گا۔ ان معاملات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے اور نقشہ راہ پر کاربند ہے اور اس کے بدلے آئي اے ای اے اور پانچ جمع ایک گروپ سے چاہتا ہے کہ وہ سیاسی تحفظات سے دور ہوکر اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طرح سے نبھائے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے سے حاصل ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئي اے ای اے تکنیکی اور غیر سیاسی طریقہ کار اپنا کر ایٹمی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرے گي اور یہ اقدام اس بات کا باعث بنے گا کہ اس پر ایران کا اعتماد دوبارہ بحال ہوجائے۔البتہ اس ادارے پر امریکہ کا اثرورسوخ ہمیشہ اس بات کا باعث بنا کہ وہ غیرجانبدارانہ فیصلے کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ الوقت- آئي اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ امریکی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی رپورٹ تیار کریں ۔عہدے اور منصب آنے جانے والے ہیں حقیقت پسندانہ اور تعصبات سے پاک فیصلے تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔ آئي اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو اپنے آپ کو تاریخ کا قابل زکر حصہ اور اپنے کردار کو دوسروں کے لئے مثالی نمونہ بنانا چاہتے ہیں توصرف اپنے فرائض منصبی ادا کریں اور کسی قسم کے دباؤ کو قابل اعتنا قرار نہ دیں۔