الوقت- روسی حکام نے امریکہ کی قیادت میں بنائے گئے داعش مخالف اتحاد کے غیر موثر ہونے اور شکست کھانے کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی تاکید کی کہ ہم شام میں اس لئے آئے ہیں کہ دہشتگردی کا مقابلہ کریں اور شام کے بحران کے سیاسی حل کے لئے راہ ہموار کریں، اور اس سلسلے میں ماسکو کی جانب سے کئے گئے اقدامات امریکہ کے لئے نہ صرف کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بننے چاہیئیں بلکہ واشنگٹن کو ماسکو کے ان اقدامات کا استقبال کرنا چاہیئے۔ ان دنوں میڈیا پر سب سے گرما گرم اور پہلی بحث شام میں روس کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔ امریکی حکام پریشانی کے عالم میں ان تبدیلیوں کے بارے میں تفتیش کر رہے ہیں اور شام میں روس کے حقیقی اہداف اور منصوبوں کے بارے میں مختلف اندازے لگا رہے ہیں، امریکہ بڑے وسیع پیمانے پر روس کے بارے میں قیاس آرائیاں کررہا ہے جس میں روس کے داخلی امور سے لے کر مشرق وسطٰی پراس کی اجارہ داری شامل ہے، لیکن لگتا ہے کہ ولادیمیر پوٹن کے اپنی فوج کو لاذقیہ پورٹ پر بھیجنے کا ایک اہم ترین مقصد شام میں امریکہ کے اہداف اور مقاصد کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کو ماسکو کے ساتھ تعاون پر مجبور کرنا بھی ہے۔
روسی حکام نے امریکہ کی قیادت میں بنائے گئے داعش مخالف اتحاد کے غیر موثر ہونے اور شکست کھانے کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی بھی تاکید کی کہ ہم شام میں اس لئے آئے ہیں کہ دہشتگردی کا مقابلہ کریں اور شام کے بحران کے سیاسی حل کے لئے راہ ہموار کریں، اور اس سلسلے میں ماسکو کی جانب سے کئے گئے اقدامات امریکہ کے لئے نہ صرف کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بننے چاہیئیں بلکہ واشنگٹن کو ماسکو کے ان اقدامات کا استقبال کرنا چاہیئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس نے شام میں داخلے اوراپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے لئے قانونی، ڈپلومیٹک اور میدانی تمام پہلووں کو مدنظر رکھا ہے لہذٰا اسی دلیل کی بنا پرامریکہ مجبور ہے کہ شام کے بحران میں روس کے ساتھ تعاون کرے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تاکید کے علاوہ روسی شام میں اپنی موجودگی کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک تو شامی حکومت نے ہم سے درخواست کی ہے اور دوسرا دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدوں کی بنا پر وہ شام میں موجود ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران سفارتی سطح پرروسیوں نے علاقائی ممالک جن میں ایران، سعودی عرب، مصر اور اردن شامل ہیں، کے سفارتکاروں اور سکیورٹی حکام سے ملاقاتیں کیں، تاکہ شام میں اپنے منصوبوں پر ان سے تبادلہ خیال کر سکیں، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق روس کی شام میں موجودگی عملی طور پرایران کے ساتھ ہم آہنگی کے نتیجے میں ہے۔ فاکس نیوز ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لاذقیہ میں روسی فوجی اڈے کا قیام ولادیمیرپوٹن کے ایرانی حکام کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدے کا حصہ ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "فاکس نیوز سمجھتا ہے کہ روس اور ایران نے شام کے صدر بشار اسد کو مضبوط کرنے کے لئے ایک مشترکہ فوجی منصوبے پر بحث و مباحثہ کیا ہے"۔
نیز ایرانی اعلٰی حکام نے بھی شام کے مسئلے پر ماسکو اور ایران کے مابین ہم اہنگی کی تائید کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران کے معاون اور سینئر مشیر میجر جنرل سید یحیی صفوی نے نماز جمعہ کے خطبہ سے پہلے اپنی تقریرمیں کہا کہ "امریکہ کے افغانستان پر فوجی حملے کے خاتمے کےبعد سے، یعنی گذشتہ 14 سال سے موجودہ روسی فیڈریشن کے ایران کے ساتھ اچھے سیاسی روابط ہیں اور اب خطے میں پیش آنے والے بعض مسائل، جیسے شام کے بحران میں روس ایران کا ہم خیال ہے"۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، روس اور حزب اللہ لبنان، شام کی سیاسی حمایت اور مقاومت کے محور کو فوجی مشورے فراہم کرتے رہیں گے۔ واضح ہے کہ مقاومت کے محور کے اصلی کردار جو شام کے زمینی حقائق اور وہاں پر ہونے والی تبدیلیوں سے مکمل طور پر آشنا ہیں، سے ہم آہنگی روسی فوجیوں کے لئے سیکوریٹی کا باعث بنے گی۔
مختلف سطح پر کئے گئے روس کے سلامتی اور سیاسی اقدامات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ امریکہ شام میں روس کے وجود کو تسلیم کر لے۔ ان حالات میں روس نے امریکہ کی حوصلہ افزائی کے طور پر اسے شام کے حالات کو سدھارنے میں تعاون کرنے کے لئے فوجی سطح پر گفتگو کی پیشکش کی ہے۔ بدھ 16 ستمبر کوامریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا کہ شام کے مسئلے پر روس کی جانب سے فوجی سطح پر گفتگو کی دعوت پر غور کیا جا رہا ہے کہ انہیں کیسے اور کیا جواب دیا جائے۔ جان کیری نے واضح کیا کہ روسی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی حکام ایک دوسرے سے گفتگو کریں، تاکہ شام میں ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کی فوج کی موجودگی سے پیش آنے والے رسک کا جائزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے کے اہداف و مقاصد اور راستوں سے مکمل آگاہی حاصل کر سکیں۔
گو کہ ابھی واضح نہیں کہ روس کی اس درخواست پر امریکہ کا ردعمل کیا ہو گا لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران کے تعاون سے شام میں روس کی موجودگی امریکی اہداف اور منصوبوں کی روک تھام میں بہت اہم کردار ادا کرے گی اور واشنگٹن شام کے مسئلے پر روس سے تعاون کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔