الوقت- گذشتہ دنوں میں عرب دنیا کی عالمی تنظیموں نے بیان جاری کرکے سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلیمان پر مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک عرب اور بین الاقوامی ٹیم یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے جرائم کی رپورٹیں اور دستاویزات نیز ثبوت و شواہد پیش کرنے والا ہے جن سے آل سعود اور ا سکے پٹھووں کے جرائم پر سے پردہ ہٹ جائے گا۔ پینتالیس تنظیمیں اس امید سے کہ سعودی بادشاہ پر مقدمہ چلایا جائے گا یمن کے عوام بالخصوص خواتین اور بچوں پر آل سعود کے جرائم پر سے پردہ اٹھا نے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنطیموں کی جانب سے عدل وانصاف کے حصول اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے انسان دوستانہ اقدامات بڑی اچھی بات ہے لیکن اس سلسلے میں عالمی اداروں اور عالمی عدالت کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور ان سے انصاف کی کوئي امید نہیں رکھی جاسکتی۔ لبنان سے لے کر فلسطین اور دیگر مسائل میں عالمی عدالت کی جانبداری اور وابستگي ثابت ہوچکی ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں دوہزارپانچ میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد عالمی عدالت میں اس کیس کے تعلق سے اس کی سیاسی قلابازیاں سب نے دیکھیں۔ ابتدا ہی سے اس عدالت نے اپنی تحقیقات میں ٹھوس دلیلوں اور شواہد پر بھروسہ نہیں کیا ہے بلکہ سیاسی مقاصد اور کینوں پر مبنی ثبوت و شواہد سے کام لیا لیکن بہت جلد اس کیس میں بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کے نائب سربراہ گرھارڈ لیمان کی رشوت ستانی کا معاملہ سامنے آگيا لیکن اس کے باوجود اور جبکہ یہ ثابت ہوچکا تھا کہ رفیق حریری کے قتل میں صیہونی حکومت ملوث ہے عالمی عدالت نے اپنی روش نہیں بدلی اور اس کیس کو کنارے لگاتے ہوئے اسکی اہمیت کم کردی۔
عالمی عدالت نے فلسطینی مسائل میں بھی ہمیشہ جانبداری سے کام لیا ہے اور بارہا کہا ہے کہ یہ عدالت فلسطینیوں کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف کی گئي شکایات کا جائزہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ دراصل قضیہ الٹا ہے صیہونی حکومت نے اپنے آقاؤں کی مدد سے فلسطینی مزاحمت کو دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے عالمی عدالت میں لاکھڑا کرنےکی دھمکیاں دی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شام میں دہشتگرد گروہوں کے سرغنے بآسانی ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے ہیں اور اردن اور ترکی جیسے ملکوں میں بے گناہ عوام کے قتل عام کے منصوبے بناتے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی عدالت نے ان دہشتگرد سرغنوں کو اور ان کی حمایت کرنے والے ملکوں کے حکام کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلانے کے لئے کوئي اقدام نہیں کیا ہے۔واضح رہے عالمی عدالت دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے کا کوئي ارادہ نہیں رکھتی بلکہ وہ محض دو اھداف رکھتی ہے۔ پہلے یہ کہ مغرب سے وابستہ ملکوں کو ڈرانا دھمکانا جیسے سعودی عرب ہے۔ اگر سعودی عرب یمن میں اپنی من مانی کرنے لگے تو پھر اسے عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے، دوسرے یہ کہ صیہونی حکومت کے مفادات کی راہ میں قدم اٹھانا اور اس کے سامنے موجود رکاوٹیں ہٹانا۔ ان امور کےپیش نظر یہ بعید نظر آتا ہےکہ یمن کی حمایت میں عرب اور عالمی تنظیموں کی جانب سے پیش کئےجانے والے ثبوت و شواہد عالمی عدالت کے افسوسناک رویے کو بدلنے میں کامیاب ہوسکیں گے کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ یمن میں آل سعود کے جرائم اور اقدامات سے آگاہ ہیں اور بلکہ اپنی خاموشی اور فوجی حمایت سے جارح آل سعود کی بھرپور حمایت بھی کررہے ہیں کیونکہ آل سعود یمن میں مغربی ملکوں کے مفادات کے لئے کام کررہا ہے۔ اس مسائل کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جارحین اور مجرم حکام پر مقدمہ چلانے اور انہیں کیفر کردارتک پہنچانے کے لئے نہ صرف عالمی عدالت بلکہ عالمی نظام میں اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔