الوقت- المی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف عالمی ادارے بنا دئيے گئے ہین لیکن ان عالمی اداروں پر امریکہ کا تسلط اس قدر زیادہ ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اہم فیصلوں میں پس و پیش سے کام لیتے رہتے ہیں۔اسی حوالے سےگذشتہ دنوں ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی آئي ا ے ای اے کی انسٹھویں جنرل کانفرنس ویانا میں منعقد ہوئي ۔ اس کانفرنس کی افتتاحیہ تقریب سے آئي اے ای اے کے رکن ملکوں کے اعلی حکام نے منجملہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے خطاب کیا۔ ایٹمی انرجی کا پرامن استعمال، آئي اے ای اے کے سیف گارڈ اصولوں پر عمل درامد، صیہونی حکومت کی غیر روایتی ایٹمی سرگرمیاں، ایٹمی سیفٹی اور سکیورٹی سے متعلق اقدامات ایٹمی ٹکنالوجی اور سائنس سے پرامن طور پر استفادہ کرنا اس پانچ روزہ کانفرنس کے موضوعات تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس نشست میں دوکلیدی موضوعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ پہلا موضوع یہ تھا کہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بنانے کے لئے کوئي اقدام کرنا، ان کا ذخیرہ کرنا اور ان کا استعمال ناجائز ہے۔ علی اکبر صالحی نے اس موقف کو اسلامی جمہوریہ ایران کا اہم سیاسی اصول قراردیا جس کا سرچشمہ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا فتوی ہے۔ علی اکبر صالحی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کی اہمیت اور مثبت نتائج کے بارے میں کہا کہ اھل عالم کے لئے اس معاہدے کا اہم پیغام یہ ہے کہ پابندیاں اور فوجی دھمکیاں ایرانی قوم کے ارادے پر کبھی اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔
قابل ذکر ہے اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبرانقلاب اسلامی کی جانب سے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں منجملہ ایٹمی ہتھیار بنانے، ان کا ذخیرہ کرنے اور ان کے استعمال کو حرام قرار دئے جانے کے فتوے کے مطابق تعمیری تعاون اور باہمی احترام کے اصولوں پر، پرامن ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ اسی بنا پر ایران نے پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادہ کرنے کے اپنے حق پر زور دیتے ہوئے پانچ جمع ایک گروہ کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تھے اور تقریبا تیئيس ماہ کے سیاسی اور تکنیکی مذاکرات کے بعد مشترکہ جامع ایکشن پلان کےپیرائے میں ایٹمی معاہدہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ دو اہم مسئلوں پر مشتمل ہے۔ پہلامسئلہ یہ ہے کہ ایران کسی بھی صورت میں چاہے پابندیاں ہوں یا فوجی دھمکیاں ہوں وہ اپنے مسلمہ حقوق سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا۔دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس ایٹمی معاہدے سے ایک غیر ضروری اور مصنوعی بحران کو ختم کرنے کے نئے مواقع ہاتھ لگے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس ھدف پر پہنچنے کے لئے ایٹمی مسئلے پر آفاقی نظر رکھتا ہے اور این پی ٹی معاہدے پر مکمل طرح سے عمل درآمد کا خواہاں ہے۔ اسی بنا پر ایران نے پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ نقشہ راہ نامی معاہدے پر دستخط بھی کئے ہیں۔ ایران اور ایٹمی ایجنسی نے چودہ جولائي کو تعاون اور گفتگو جاری رکھنے پر مبنی معاہدے کی رو سے حل نشدہ مسائل کو حل کرنے کا پختہ عزم ظاہر کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جیسا کہ رضا کارانہ طور پر اعتماد سازی کے اقدامات کرکے واضح کردیا ہےکہ وہ جامع مشترکہ ایکشن پلان اور نقشہ راہ کا پابند ہے اور اس کے بدلے میں آئي آے ای اے اور پانچ جمع ایک گروپ سے چاہتا ہےکہ وہ بھی عالمی برادری کو اپنے احساس ذمہ داری کا ثبوت پیش کرے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی ترک اسلحہ کے حامی کی حیثیت سے ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملکوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے کے چھٹے قانوں میں مندرج تمام امور پر عمل کریں۔ یاد رہے ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ملکوں نے ایٹمی ترک اسلحہ کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا ہے۔ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک رکھنا بھی ایک مطالبہ ہے جو صیہونی حکومت اور امریکہ کی خلاف ورزیوں کی بنا پر ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ واضح رہے مشرق وسطی میں صرف صیہونی حکومت کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس طرح کی دوہری پالیسیاں علاقے کی سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ لھذا ان اھداف کو حاصل کرنا آئي اے ای اے کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور ایجنسی کے ارکان کو توقع ہے کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے لئے موثر اقدامات کرے گي۔ آئي اے ای اے کی جنرل میٹنگ میں علی اکبر صالحی کے خطاب سے ان ذمہ داریوں کی ياد دہانی ہوتی ہے۔ ایران گذشتہ کئ سالوں سے عالمی برادری کو یہ باور کرارہا ہے کہ وہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے درپے نہیں ہے لیکن امریکی اور مغربی پروپگینڈے نے دنیا کی آنکھوں پر پردا ڈال رکھا ہے تاہم حالیہ ایٹمی معاہدے سے عالمی برادری کی غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایران کے پر امن پروگرام کے بارے میں تو دنیا بھر میں شور شرابا کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی غاصب حکومت جسکے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں اس پر کوئی آواز تک نہیں اٹھاتا۔