الوقت- عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل عربی نے کہا ہے کہ وہ شام کے وزیر خارجہ ولید معلم سے کسی بھی وقت ملاقات کرنے کو تیار ہیں۔ نبیل العربی کی یہ بات اس امر کی واضح نشانی ہے کہ وہ مصر اور شام کو ایک دوسرے کے قریب لآنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے نبیل عربی مصری ہیں اور وہ مصری حکام سے بات چیت کئے بغیر اس طرح کا بیان ہر گز نہیں دے سکتے۔ نبیل عربی نے یہ کہنے کے بعد کہ شام عرب لیگ کارکن ہے اور اسکی رکنیت ختم نہیں کی گئي ہے بلکہ شام کی جانب سے عرب لیگ کے بائيکاٹ کے نتیجے میں اس کی رکنیت معطل کردی گئي ہے کہا کہ مصر اور بعض عرب ممالک شام سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں اور دہشتگرد گروہوں کےتعلق سے ان ملکوں اور شام کے نظریات بہت نزدیک ہیں۔
ادھرشام کے وزیر خارجہ ولید معلم نے بڑی گرمجوشی سے مصر کے میڈیا وفد کا استقبال کیا جو شام کے حالات کا جائزہ لینے دمشق پہنچا ہے۔ مصر کا میڈیا وفد شام میں دہشتگردوں کے تخریبی اقدامات کا جائزہ لے گا ۔ شام کے وزیر خارجہ نے مصری وفد سے ملاقات میں کہا ہےکہ شام اور مصر کے درمیاں سیکورٹی میدان میں ہماہنگي اور تعاون سے اضافہ ہونا چاہیے اور دونوں ملکوں کو مل کر دہشتگردوں کےخلاف کاروائیاں کرنی چاہیں۔
دوسری طرف صدر بشار اسد نے بھی دہشتگردوں کی تخریبی فکر کا مقابلہ کرنے کےلئے ہمسایہ ملکوں کے آپسی تعاون پر زور دیا ہے۔صدر بشار اسد نے کہا ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہوں کی حمایت دراصل مغربی سامراجی ملکوں کی حمایت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام مصری فوج کے ساتھ ایک محاذ میں دہشتگردی اور تخریب کار گروہوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔
واضح رہے شام اور مصر کے قریب آنے کے کچھ محرکات ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
اول : مصر کے حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شام کے ساتھ تعلقات معمول پر لاکر اور ان میں بہتری لاکر وہ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔یاد رہے روس علاقے میں کلیدی کردار کا حامل ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ مصر اس طرح روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے علاقے میں اپنے سیاسی اھداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔
دوم: مصر کے تعلق سے امریکہ کی پالیسیاں منفی رخ اختیار کرتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی کشیدگي آگئي ہے۔ اس کی اہم ترین علامت یہ ہےکہ امریکہ نے مصر کے لئے فوجی مدد کا بڑا حصہ روک لیا ہے اور اس کے علاوہ مصر کے ساتھ ستارہ درخشان نامی فوجی مشقیں بھی منسوخ کردی ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے مصر کے سیاسی رہنما اس فکر میں پڑگئے ہیں کہ وہ شام سے قریب ہوکر روس سے دوستی کرسکتے ہیں اور اس طرح اپنی حکمت عملی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
سوم: مصر اور شام دہشتگرد گروہوں کے بارے میں اشتراک نطر رکھتے ہیں اور اب یہ قاہرہ اور دمشق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی تا کہ دہشتگردوں سے مقابلہ کرسکیں۔ مصری حکام کا یہ خیال ہے کہ اگر دہشتگردوں سے مقابلے میں کوئي ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گياتو وہ شام سے نزدیک نہیں ہوپائے گا اور ان کے ملک میں دہشتگردوں کے اقدامات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مصری حکام یہ بخوبی جانتے ہیں کہ شام کو دہشتگردوں سے مقابلہ کرنے میں اہم تجربہ حاصل ہے اور شام اس سلسلے میں مصر کی مدد کرسکتا ہے جس سے اسے بے حد فائدہ ہوگا۔